[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اتوار کی شام ملک کے تقریبا تین ہزار طلبہ اور اسٹوڈنٹ یونینوں کے نمائندوں سے ملاقات میں جو تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہی ‘آج سے بہتر کل’ کو ملک اور نظام کا اصل ہدف قرار دیا اور اس بنیادی ہدف کو عملی جامہ پہنانے اور ملک کی مادی و معنوی پیشرفت کے لیے اسٹوڈنٹس اور اسٹوڈنٹ یونینوں کو نئی نئي تجاویز اور جدت عمل پیش کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ عالم کی تربیت، علم کی پیداوار اور ان دونوں باتوں کو سمت عطا کرنا، یونیورسٹی کے تین اصلی فرائض ہیں۔
انھوں نے اسٹوڈنٹس کے ماحول کی فطرت کو شاداں، فرحت بخش، ہیجان انگيز، اشتیاق آمیز اور چیلنجنگ بتایا اور اس ملاقات میں طلبہ یونینوں کے نمائندوں کی طرف سے پیش کی گئي باتوں پر کام کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہر تجویز میں فکری اور تجزیاتی گہرائي ہونے کے ساتھ ہی اسے حقیقت پسندانہ اور پختہ ہونا چاہیے اور مشکلات کو برطرف کرنے میں معاون ہونا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے برسوں کی نسبت انصاف کے سلسلے میں ان کے نظریے میں تبدیلی کے سلسلے میں ایک یونین کے نمائندے کی بات کے جواب میں کہا کہ تبدیلی یہ ہے کہ انصاف کے سلسلے میں ناچیز کا اصرار مزید بڑھ گيا ہے۔
انھوں نے اس سال کے رمضان المبارک کو تلاوت کی نشستوں کے عام ہونے سمیت معاشرے میں معنوی پہلوؤں کے مزید ظہور کے لحاظ سے بہت اچھا مہینہ بتایا اور طلبہ سے اس مہینے میں حاصل ہونے والی نورانیت اور پاکیزگي کی حفاظت کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اس ہدف کو عملی جامہ پہنانے کا راستہ، گناہوں سے پرہیز ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں علم کو یونیورسٹی کا اصل ستون بتایا اور یونیورسٹی کے تین اصل فرائض یعنی عالم کی تربیت، علم کی پیداوار اور عالم کی تربیت اور علم کی پیداوار کو سمت عطا کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی یونیورسٹیاں تیسرے فریضے یعنی عالم کی تربیت اور علم کی پیداوار کو صحیح سمت دینے کے مسئلے میں مشکل میں گرفتار ہیں اور اسی وجہ سے ان کے پروڈکٹس سامراجی اور صیہونی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتے ہیں۔
انھوں نے چانسلروں، پروفیسروں، اسٹوڈنٹس اور درسی نصاب سمیت یونیورسٹی کے تمام ارکان کی جانب سے ان تین اہم فرائض پر توجہ دیے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ایران کی عالمی حیثیت کے ایک بڑے حصے کو ملک کی سائنسی اور تکنیکی پیشرفت کا مرہون منت بتایا اور کہا کہ اس حیثیت کی حفاظت کرتے ہوئے ملک کو علمی و سائنسی لحاظ سے مستغنی بنانا چاہیے تاہم سامراجی طاقتیں ایران کے لیے اس حیثیت و طاقت کو پسند نہیں کرتیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آج سے بہتر کل کو ملک اور نظام کا بڑا اور اہم ہدف بتایا اور زور دے کر کہا کہ اس بنیادی ہدف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے معینہ امیدیں طے کرنی چاہیے۔
انھوں نے ملک اور نظام کی موجودہ پوزیشن کی شناخت کو امیدوں اور بہتر کل کی سمت پیشقدمی کی راہ میں پہلا قدم بتایا اور کہا کہ بعض لوگ اس فیصلہ کن اور اصلی حقیقت سے غافل ہیں کہ موجودہ انقلابی نظام، سیاہ طاغوتی دور کی مسلسل دشوار اور پیچیدہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے پہلوی حکومت کے حقائق کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں ایران کے عوام پر مختلف طرح کی برائيوں میں مبتلا ایک فیملی کی حکمرانی تھی اور معاشرے کا نظم و نسق چلانے میں بھی پوری طرح سے مطلق العنانی تھی اور آج کے برخلاف ملک کے مسائل میں عوام کا کوئي کردار اور شرکت نہیں تھی۔
انھوں نے اجتماعی تشخص کے لحاظ سے پہلوی دور کے ایران کو سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں اغیار کا پٹھو بتایا اور اس صورتحال کو شرمناک بتاتے ہوئے کہا کہ سنہ 1940 کے عشرے کے اوائل سے مختلف صاحب رائے افراد نے اس انتہائي تلخ حقیقت سے مقابلہ شروع کیا جس کا اوج تیل کو قومیائے جانے کی تحریک تھی اور وہ تحریک بھی اٹھارہ اگست کی امریکی و برطانوی بغاوت میں غنڈوں اور بدمعاشوں کے ذریعے کچل دی گئي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ علمی لحاظ سے بھی اگرچہ پہلوی دور میں یونیورسٹیوں میں اچھے اور مفید اساتذہ تھے لیکن یونیورسٹیوں سے قابل اعتماد علمی، سائنسی، صنعتی اور تکنیکی پروڈکٹس حاصل نہیں ہوتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ انقلاب کا متن، جمہوریت اور اسلامیت پر مبنی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی امنگوں کو دو عناوین کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے: اسلامی طرز پر ملک چلانا اور ایک ملک کو اچھی طرح چلانے کے لیے دنیا کے لوگوں کے سامنے ایک آئيڈیل پیش کرنا۔
انھوں نے اسلامی طرز پر ملک چلانے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب مادی و معنوی پیشرفت کے ایک ایسے راستے پر مسلسل چلنا ہے جس میں کوئي پسپائي نہ ہو۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے دوسرے ہدف یعنی ملک چلانے کا ایک آئيڈیل دنیا کے سامنے پیش کرنے کو درحقیقت دنیا کے لوگوں کے لیے ہمدری اور خیر اندیشی بتایا اور کہا کہ یہ ہدف بعض پہلوؤں سے کسی حد تک عملی جامہ پہن چکا ہے اور ایسے بہت سے واقعات جو آپ نوجوانوں کو پرجوش کردیتے ہیں اور آپ علاقے اور دنیا کی سطح پر ان پر فخر کرتے ہیں، آپ کے ملک، معاشرے اور انقلاب سے متعلق ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کہا کہ اسٹوڈنٹ یونینوں سے بڑی توقعات ہیں۔رہبر انقلاب نے ان سے کچھ سفارشیں کیں۔ انھوں نے بعض یونیورسٹیوں کی ایسی کوششوں پر تنقید کی جن میں ایرانی اسٹوڈنٹس کا تشخص مغرب کی تقلید پر منحصر بتایا جاتا ہے۔انہوں کہا کہ اسٹوڈنٹ یونینوں کو اس طرح کی کوششوں کے مقابلے میں بھرپور طریقے سے ڈٹ جانا چاہیے۔