[]
سید قدیر
کالاموتیا، جو طبّی اصطلاح میں گلوکوما (Glaucoma) کہلاتا ہے، ایک ایسی بیماری ہے، جس میں پردہ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نظر کمزور ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ بینائی بھی ضائع ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ یہی عارضہ قرار دیا گیا ہے۔ حال ہی میں سروجنی دیوی آئی ہاسپٹل میں ’گلوکوما ہفتہ‘ منایا گیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گلوکوما شعبہ کی ڈاکٹر سپرنا نے بتایا کہ عالمی صحت تنظیم کی جانب سے ہر سال مارچ کے دوسرے ہفتہ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آنکھوں کی متعدد بیماریاں ہوتی ہیں تاہم صرف اسی ایک بیماری کے لئے دنیا بھر میں خصوصی ہفتہ منانے کی وجہ یہ ہے کہ اس بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی ہے اور یہ مرض کسی کو بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اس کے بارے میں شعور بیداری ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں 80 کروڑ افراد گلوکوما سے متاثر ہیں‘ جبکہ ہندوستان میں ایسے مریضوں کی تعداد 1.2 کروڑ سے 1.5 کروڑ کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست تلنگانہ کی آبادی 4 کروڑ ہے اور یہاں بھی آبادی کا ایک فیصد حصہ اس بیماری سے متاثر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف 10 فیصد لوگوں کی ہی تشخیص ہوئی ہے جبکہ 90 فیصد افراد میں ابھی اس کی تشخیص ہونی باقی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے مزید بتایا کہ جن لوگوں کو یہ بیماری ہوچکی ہے‘ اُن میں اندھا پن بھی شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ روز مرہ کے کام کاج میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس بیماری میں آنکھ اور دماغ کو ملانے والی آپٹک نَرو (Optic Nerve) متاثر ہوجاتی ہے۔ اصل میں آنکھ ایک کیمرے کی مانند ہے، جو صرف منظر قید کرسکتی ہے، دیکھ نہیں سکتی، جب کہ پردہ بصارت جو کہ ایک ڈیجیٹل سینسر کی طرح ہے، اس پر کسی بھی منظر یا شئے کا عکس بنتا ہے اور برقی اشارات میں تبدیل ہوکر آپٹک نَرو کے ذریعہ دماغ کے سب سے پچھلے حصّہ میں منتقل ہوجاتا ہے اور پھر وہاں تصویر اپنے پورے خدوخال سے ظاہر ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کالاموتیا میں آنکھ اور دماغ کے رابطہ کا ذریعہ ’’آپٹک نَرو‘‘ ہی متاثر ہوجاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جب کسی وجہ سے آنکھ کا قدرتی اندرونی دبائو بڑھ جائے، تو یہ آپٹک نَرو متاثر ہوجاتی ہے، جس کے نتیجہ میں کالا موتیا لاحق ہوجاتاہے۔
کالاموتیا کی 2 بنیادی اقسام ہیں، جن کی وضاحت سے قبل آنکھ کی ساخت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہماری آنکھ کیمرے سے ملتی جُلتی ہے۔ سامنے کی جانب 2 لینسز (عدسے) واقع ہیں اور پیچھے کی جانب جیسے کیمرے میں فلم یا سینسر ہوتا ہے، اسی طرح کا پردہ بصارت یعنی ریٹینا (Retina) پایا جاتا ہے، جبکہ سامنے والا سب سے بڑا عدسہ قرنیہ (Cornia) کہلاتا ہے۔ نیز، درمیان میں بھی ایک قدرتی عدسہ موجود ہوتا ہے۔ قرنیہ اور قدرتی عدسہ کے درمیان جو چیمبر یا خانہ ہوتا ہے، اُسے انٹیرئیر چیمبر کہا جاتا ہے۔ اس خانہ کے اندر پیدا ہونے والا پانی قدرت کی طرف سے نہ صرف آنکھ کو غذائی مواد کی فراہمی کا ذمّہ دار ہے، بلکہ اس کے اندرونی دبائو کو بھی برقرار رکھتا ہے، تاکہ آنکھ بہترین شفّاف تصویر والے کیمرے کا کام کرسکے۔ قدرتی طور پر پانی کے رِسنے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے، اسے طبّی اصطلاح میں سامنے والے خانہ کا پانی کہتے ہیں۔ جب یہ پانی بنتا ہے، تو آنکھ ہی کے ذریعہ نکلتا ہے۔ یہ ایک مربوط نظام ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جب سامنے والے خانہ سے پانی گزرتا ہے، تو قرنیہ اور آئرس (iris) کے درمیان ایک زاویہ سا بن جاتا ہے اور اس زاویہ سے گزر کر ہی قدرتی پانی آنکھ سے نکل پاتا ہے۔ آنکھ کا پانی بننے اور اس کے اخراج کا توازن برقرار رہنے کی صُورت ہی میں آنکھ کا اندرونی دبائو بھی نارمل حالت میں رہتا ہے، لیکن جب یہ توازن بگڑجائے یا اس کے اخراج میں کسی سبب رکاوٹ پیدا ہوجائے، تو کالے موتیے کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر یہ زاویہ اس قدر تنگ ہوجائے کہ پانی کا گزر اس سے ممکن نہ ہو، تو طبّی اصطلاح میں یہ قسم ’’تنگ زاویہ والا کالا موتیا‘‘ (Closed Angle Glaucoma) کہلاتی ہے۔ اگر یہ زاویہ کُھلا ہو، لیکن اس کے اندر پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے مسام یا سوراخ سُکڑ جائیں یا پانی زائد مقدار میں بن رہا ہو، تو آنکھ کا اندرونی دبائو بڑھ جاتا ہے۔ یہ دوسری قسم ’’کھلے زاویے والا کالا موتیا‘‘ (Open Angle Glaucoma) کہلائے گی۔ مرض کی علامات ان ہی اقسام پر منحصر ہیں کہ اگر عُمر کے ساتھ تنگ زاویہ والا کالا موتیا ظاہر ہو اور آنکھ کا اندرونی دباو اچانک بڑھ جائے، تب شدید درد، سُرخی، آنکھ سے زائد پانی بہنے اور خارش جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ یہ علامات کالے موتیے ہی کی ہوں۔ اگر کُھلے زاویے والا کالا موتیا ہو اور آنکھ کا دبائو بتدریج بڑھ رہا ہو، تو اس صُورت میں درد ہوتا ہے، نہ کوئی دوسری علامت ظاہر ہوتی ہے۔ نیز، نظر کی علامات بھی اُس وقت ظاہر ہوتی ہیں، جب 90 فیصد بینائی ضائع ہوچُکی ہو۔
یہ مرض عمر کے کسی بھی حصّہ میں لاحق ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر موروثی کالاموتیاکے اثرات پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں، جب کہ عمر کے ساتھ لاحق ہونے والا کالا موتیا زیادہ تر بڑھاپے میںہوتا ہے۔ لیکن عُمر کا ایسا کوئی مخصوص حصّہ نہیں، جس میں کالا موتیا نہ ہوتا ہو، یہ کسی بھی عمر میں بینائی کو متاثر کرسکتا ہے۔ یاد رکھئے، کالا موتیا تب خطرناک ثابت ہوتا ہے، جب اس کی تشخیص بروقت نہ ہو۔ عام طور پر مریض کی اپنی سُستی یا معالج کی جلد بازی کے سبب مرض بروقت تشخیص نہیں ہوپاتا۔ دراصل معالج ایک مخصوص وقت میں کئی مریضوں کا معائنہ کررہا ہوتا ہے، اس صُورت میں زیادہ تر آپٹک نَرو کا درست معائنہ نہیں ہوپاتا اور جب تک مرض تشخیص ہوتا ہے، انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچُکا ہوتا ہے، بلکہ بعض کیسز میں تو نوبت اندھے پَن تک آجاتی ہے۔ عام طور پر مرض کی نوعیت کے مطابق ادویہ، لیزر شعاوں اور جراحی کے ذریعہ اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ موجودہ دَور میں کئی ادویہ قطروں کی صورت میںبھی دستیاب ہیں۔ ماضی کی نسبت اب جدید آلات کی بدولت اس مرض کا علاج سہل ہے۔ جیسے او سی ٹی (optical coherence tomography) کے ذریعہ اندھا پَن پیدا ہونے سے 10 یا 20 برس قبل تشخیص کیا جاسکتا ہے۔
بینائی اگر ایک بار چلی جائے، تو پھر کسی صُورت بحال نہیں کی جاسکتی۔ البتہ بروقت تشخیص و علاج کی بدولت بینائی مکمل طور پر ضائع ہونے سے بچائی جاسکتی ہے اور اس کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ مرض کس مرحلہ میں تشخیص ہوا، آنکھ کو کتنے فیصد نقصان پہنچ چُکا ہے، نظر کا احاطہ کس قدر سُکڑ گیا ہے، نیز گہرے سیاہ دھبّے کتنے بڑے ہوچُکے ہیں؟ یاد رکھیں، جس قدر احاطہ نظر ضائع ہوچُکا ہو یا کالے دھبّے پڑچُکے ہوں، تو پھر اُس کا دوبارہ اصلی حالت میں آنا ممکن نہیں، البتہ علاج کے ذریعہ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرکے بینائی کو مزید نقصان پہنچنے سے روکا جاسکتا ہے۔
سروجنی دیوی آئی ہاسپٹل میں گلوکوما وویک کے دوران 1357 مریضوں کی جانچ کی گئی جن میں 219 میں گلوکوما مثبت پایا گیا۔ ان میں خواتین کے مقابلہ میں مردوں میں یہ بیماری زیادہ پائی گئی ہے۔ 219 میں 148 مرد اور 71 خواتین رہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰