سسودیا نے اپنے بیٹے کو تعلیم کے لئے بیرون ملک کیوں بھیجا ؟: بی جے پی

بی جے پی نے پوچھا کہ سسودیا یہ بتائیں کہ وہ دہلی میں بڑی یونیورسٹیوں کی بات کرتے ہیں، پھر انہوں نے اپنے بیٹے کو  قرض لے کر تعلیم کے لئے بیرون ملک کیوں بھیجا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے انتخابی حلف نامہ میں دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے داخل کردہ قرض کے اعداد و شمار پر سوال اٹھائے ہیں اور ان سے اپنی غیر معمولی آمدنی اور قرض ملنے کے ذرائع کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔

بی جے پی نے کہا، “عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے قومی کنوینر اروند کیجریوال ہوں یا سابق نائب وزیر اعلیٰ سسودیا، ان کی غیر معمولی آمدنی کے ذرائع اور 2020-21 سے 2023-24 کے درمیان قرض ملنے کے ذرائع سب مشکوک ہیں۔ ہم کوئی الزام نہیں لگا رہے ہیں، ہم صرف دہلی کے لوگوں کی طرف سے وضاحت مانگ رہے ہیں۔

دہلی بی جے پی کے صدر وریندر سچدیوا نے کہا کہ دو دن پہلے بی جے پی نے عوامی تجسس کا سوال اٹھایا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی وزیر اعلیٰ اپنی بنیادی آمدنی سے کم کا انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرے، لیکن کیجریوال نے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کیونکہ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اس کا جواب کیسے دیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے انکم ٹیکس گوشواروں کے اعدادوشمار شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں اور آج پھر ہم کیجریوال سے سوال پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پچھلی دہائی میں آپ کے انکم ٹیکس میں دکھائی گئی آمدنی آپ کی اصل تنخواہ سے بھی کم ہے لیکن شراب پالیسی بننے والے کووڈ سال میں چالیس گنا بڑھ گئی تھی؟

منیش سسودیا پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل والدین کا اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے قرض لینا ایک عام سی بات ہے لیکن سسودیا کے معاملے میں یہ غیر معمولی ہے اور بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ عام طور پر ہم سب بینک سے بچوں کا تعلیمی قرض لیتے ہیں، لیکن سسودیا کاروباری لوگوں سے قرض لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ” سسودیا کا انتخابی حلف نامہ بہت کچھ بتاتا ہے کہ سسودیا، ہم عام لوگوں کی طرح فکسڈ ڈپازٹ کے ذریعے بینک میں پیسہ بچاتے ہیں، لیکن جب انہیں قرض لینے کی ضرورت ہوتی ہے، تو ان کے پاس ایسے دوست ہوتے ہیں جو انہیں لاکھوں روپے کے قرض دے دیتے ہیں وہ بھی طویل مدت کے لیے۔

انہوں نے کہا، “ہر عام شہری کی طرح، سیسودیا بھی اپنے ریٹرن کے مطابق سرکاری بینکوں میں پیسہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، مثال کے طور پر ان کے پاس بینک آف بڑودہ، شکرپور میں 14 لاکھ روپے کی فکسٹ ڈپازٹ ہے، تو پنجاب نیشنل بینک، صاحب آباد میں 19 لاکھ 97 ہزار کی فکسڈ ڈپازٹ ہے۔ ان کی بچت کے اعداد و شمار کسی بھی متوسط ​​طبقے کے کنبہ کی طرح عام ہیں، تاہم جب ہم منیش سسودیا کے تعلیمی قرض کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں، تو یہ ہیرا پھیری کا معاملہ لگتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سسودیا کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر اپنے بیٹے کی غیر ملکی تعلیم کے لئے 1.5 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ یہاں تک تو یہ نارمل لگتا تھا لیکن اس کے بعد سب کچھ غیر معمولی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا، ” کیجریوال اور سسودیا نے قرض کیوں لیا، وہ کسی بھی سرکاری اسکیم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے، یہ بھی بتائیں کہ وہ دہلی میں بڑی یونیورسٹیوں کی بات کرتے ہیں، پھر انہوں نے اپنے بیٹے کو بیرون ملک کیوں بھیجا۔ ہمیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، یہ صرف تجسس کا سوال ہے۔

انہوں نے کہا، “ہم اور آپ بینک سے بچوں کی تعلیم کے لیے طویل مدتی قرض لیتے ہیں۔ سسودیا کو اپنے تین جاننے والوں سے 1.5 کروڑ روپے کا قرض ملتا ہے۔ شراب پالیسی کے دور میں یہ غیر معمولی بات ہے اور عوام سسودیا سے جواب مانگتے ہیں۔ بی جے پی کے رہنما نے کہا کہ دہلی کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ سسودیا کے وہ تین دوست رومیش چند متل، مس دیپالی اور گنیت اروڑہ کون ہیں ، جنہوں نے سسودیا کو 86 لاکھ، 10 لاکھ اور 58 لاکھ روپے ان کے بیٹے کی تعلیم کے لئے قرض دیا۔

اس دوران وکیل اور رکن پارلیمنٹ بانسوری سوراج نے کہا کہ کیجریوال اور سسودیا شفاف سیاست کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کے انتخابی حلف نامے انہیں کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سسودیا کو بتانا پڑے گا کہ انہوں نے بینکوں کے بجائے پرائیویٹ افراد سے قرض کیوں لیا اور ان کے تین ‘قرض دینے والے دوست’ کون ہیں۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *