[]
واشنگٹن: امریکہ میں مسلمانوں کے حالات زندگی پر ایک خصوصی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو ایک طرح سے ماضی کے سابقہ اندازوں کے برعکس کچھ بہتر محسوس ہوتی ہے۔ یہ پیو ریسرچ سینٹر نے اپنی رپورٹ میں پیش کی ہے جسے نئی دہلی سے امریکہ سفارت خانے کے زیراہتمام شائع ہونے والے میگزین ’اسپین‘ نے شائع کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی معاشرے میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ 35لاکھ ہے جس میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی معاشرے میں مسلمان ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں اور ملک کے دیگر شہریوں کے مقابلے میں اُن کے اپنا کاروبار کھولنے یا کُل وقتی کام کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹرکے مطابق امریکہ میں رہائش پزیر مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ 35 سے 40 لاکھ کے درمیان ہے۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے شامل ہیں ۔عالمی سطح پر اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کی ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام سب سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے اور اگر افزائش کی یہ شرح جاری رہتی ہے تو 2050 تک مسلمانوں کی تعداد دنیا بھر میں عیسائیوں کی تعداد کے قریب قریب ہو جائے گی۔
ادھرسماجی پالیسی اور فہم کے انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس پی یو) کے 2022 کے ایک جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکی افواج میں خدمات انجام دینے والے امریکی مسلمانوں کی شرح عام لوگوں کے مقابلے میں تھوڑی سی زیادہ ہے۔
آئی ایس پی یو امریکی مسلمانوں پر اثرانداز ہونے والے رجحانات پر نظر رکھتا ہے۔ اس ادارے نے ’امریکی مسلمانوں کے 2022 کے سروے بعنوان سیاسی اور وبائی امراض کے حوالے سے ایک پورٹ‘ میں کہا کہ یہ ’’جائزہ امریکی مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کرتا ہے۔
ایک پروان چڑھتی ہوئی اور تبدیل ہوتی ہوئی کمیونٹی کی شبیہ کو مزید بہتر بنانے کے لیے اِن معلومات میں فوجی سروس اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سمیت ماضی کے اور نئے اشاریوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
اگست 2022 میں جاری ہونے والی یہ رپورٹ آئی ایس پی یو کی چھٹی سروے رپورٹ ہے۔ اس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی گروہوں اور ایسے لوگوں کا بھی سروے کیا گیا ہے جو کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس میں امریکہ کے معاشی اور علمی شعبوں میں مسلمانوں کی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
آئی پی ایس یو کا کہنا ہے کہ امریکہ میں 25سال یا اس سے زائد عمر کے امریکی عوام کے مقابلے میں مسلمانوں کے کالج کی ڈگری حاصل کر چکنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جب کہ مجموعی طور پر 38فی صد امریکیوں کے مقابلے 44 فی صد مسلمانوں کے کالج سے گریجوایشن کر چکنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
جائزہ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 8 فی صد امریکی مسلمان اپنے کاروبار میں خود ملازمت کرتے ہیں یا اُن کا اپنا ذاتی کاروبار ہوتا ہے۔ آئی ایس پی یو کا کہنا ہے کہ کاروبار کا ہر مسلمان مالک اوسطاً آٹھ کارکنوں کو ملازمت دیتا ہے اور ایک تخمینے کے مطابق کاروباروں کے مسلمان مالکان اندازاً 14 لاکھ امریکی ملازمتوں میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
چھوٹے کاروبار (جن میں 500 سے کم ملازمین ہیں) امریکی معیشت کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں 32 اعشاریہ 5 ملین چھوٹے کاروبار ہیں اور انہیں امریکی کمپنیوں میں اکثریت حاصل ہے۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے فوسٹر سکول آف بزنس میں کنسلٹنگ اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل ورشو نے 2022 میں شئیر امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کی مسلم آبادی 40 لاکھ کے قریب پہنچنے والی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کاروباروں کے مالکان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔