[]
مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ رمضان المبارک کے تیرہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اے معبود! آج کے دن لغزشوں پر میری گرفت نہ فرما، اس میں میری خطاؤں اور فضول باتوں سے درگزر کر، اور آج مجھ کو مشکلوں اور مصیبتوں کا نشانہ قرار نہ دے، بواسطہ اپنی عزت کے اے مسلمانوں کی عزت
اَللّٰھُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِیْ فِیْہِ بِالْعَثَرَاتِ وَٲَقِلْنِیْ فِیْہِ مِنَ الْخَطَایَا وَالْھَفَوَاتِ وَلَا تَجْعَلْنِیْ فِیْہِ غَرَضًا لِلْبَلَایَا وَالْاٰفَاتِ بِعِزَّتِكَ یَا عِزَّ الْمُسْلِمِیْنَ
خدایا! ہمارے ساتھ عدالت کے بجائے اپنے فضل و کرم سے سلوک کرے
اَللّٰھُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِیْ فِیْہِ بِالْعَثَرَاتِ
معصومین کے علاوہ ہر انسان اپنی زندگی میں لغزش اور خطا کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہم عفو اور بخشش طلب کرتے ہیں۔ اللہ کی عدالت بہت وحشتناک ہے اسی لئے اس کے فضل و کرم کی پناہ لیتے ہیں۔ عدالت سے پیش آئے تو انسان کو خوف محسوس ہوتا ہے جبکہ عفو اور بخشش آرام بخش ہے۔ اللہ سے آرام بخش طریقے سے پیش آنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ آسودہ خاطر ہوکر اس کے جوار میں جائیں چنانچہ نماز اور دیگر مواقع پر دعا کرتے ہیں: ہمارے ساتھ فضل و کرم سے پیش آئے عدالت سے نہیں۔
اقالہ کیا ہے؟
واقِلْنی فیهِ من الخَطایا والهَفَواتِ
اقالہ ہر قسم کی چشم پوشی اور نظرانداز کرنے کو کہتے ہیں۔ اقالہ فرما اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے۔ دعائے کمیل میں بھی یہ لفظ ہے کہ خدایا! ہماری خطاؤں کا اقالہ فرما۔ [۹] یعنی بلا معاوضہ ہمیں معاف کر دے۔ معاملات کے باب میں بھی یہ فقہی اصطلاح موجود ہے۔ یعنی بیچنے والا اور خریدار جب تک ایک دوسرے کے پاس ہیں تو انہیں معاملے کو فسخ کرنے کا حق ہے۔ تاہم جدائی کے بعد اور بلا وجہ اگر مشتری جنس کو واپس لے آئے تو تاجر کیلئے مستحب ہے کہ اسے قبول کر لے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دہی خریدتا ہے اور گھر جا کر دیکھتا ہے کہ دہی پہلے سے موجود ہے۔ اب اگر وہ یہ خریدا ہوا دہی دکاندار کو واپس کر دے تو اس کیلئے مستحب ہے کہ واپس رکھ لے اور پورے پیسے لوٹا دے۔
خدائے عزّوجل سب سے بہتر عذر قبول کرنے والا ہے جو اپنے بندوں سے جلد راضی ہو جاتا ہے یوں کہ سریع الرضا یعنی جلد راضی ہونے والے کے نام سے معروف ہے۔ توبہ حقیقت میں گناہ سے پلٹ آنے کو کہتے ہیں۔ لیکن جب اس کی نسبت خدا کی طرف دی جائے تو اس کی رحمت کی طرف لوٹنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ جس رحمت سے انسان گناہ کی وجہ سےدور ہوا تھا ، دوبارہ خدا کی بندگی میں پلٹنے کے بعد رحمت الہی بھی اس کی طرف رخ کرتی ہے۔
سوبار بھی توبہ ٹوٹ جائے ، واپس آجا
قرآن میں توبہ کو صیغہ مبالغہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے جو اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ اگر بندہ کئی بار توبہ توڑ دے تو بھی اس کی رحمت اور بخشش سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔جب انسان اللہ کی اس صفت کی طرف توجہ کرتا ہے تو گناہ سے واپس آنے کی کوشش کرتا ہے۔
بلاؤں اور آفات سے امان
لا تَجْعَلْنی فیه غَرَضاً للبلایا والآفاتِ
اور آج مجھ کو مشکلوں اور مصیبتوں کا نشانہ قرار نہ دے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب چار قسم کے گناہ عام ہوجائیں تو بلائیں نازل ہوتی ہیں: جب زنا عام ہوجائے تو زلزلہ آتا ہے۔ جب لوگ زکات دینے سے گریز کرتے ہیں تو جانوروں کی زیادہ موت واقع ہوتی ہے اور جب حکمران اپنے فیصلوں میں ظلم سے کام لیتے ہیں تو آسمان سے بارش کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور جب وعدے توڑے جاتے ہیں تو مسلمانوں پر مشرک غالب آتے ہیں۔
دوسری روایات میں آیا ہے کہ بلائیں نازل ہونے کا عامل بعض گناہان کبیرہ کا عوام کے درمیان رائج ہونا ہے۔ ہر پیش آنے والا حادثہ، ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍاور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے۔[۱۵] جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے۔