ایران کے سفیرکبیر نے انجمن کی لائبریری میں ان مخطوطات کی نمائش کا افتتاح کیا اور کہا کہ کاش ہندستان میں اردو اور فارسی کی ہر لائبریری ایسی ہی مثالی ہوجائے۔
انجمن ترقی اردو نے نہ صرف میر کے کلامِ نثر و نظم کے تمام مخطوطات کو اپنی لائبریری میں جمع کرکے اور نور مائیکروفلم کے ذریعے ان مخطوطات نیز لائبریری کے دیگر مخطوطات کے وسیع تر استفادے کے لیے ڈیجیٹائزیشن ایک عظیم کارنامہ ہے۔وہ بھی ایسے وقت میں اہم ترین کارنامہ ہے جب کتب خانے تیزی سے تباہ ہورہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارانجمن ترقی اردو کے مرکزی دفتر اردو گھر کے آڈیٹوریم میں تقریر کرتے ہندوستان میں ایران کے سفیر کبیر ڈاکٹر ایرج الہی نے کیا۔
انھوں نے میر کی خودنوشت’ ذکرِمیر‘ کے مکمل متن کی بازیافت پر انجمن کو مبارک باد دیتے ہوئے اور اس کے نہایت عمدہ ترجمے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہرچندکہ مجھے اردو نہیں آتی مگر میرے جن رفیقوں نے بھی ڈاکٹر صدف فاطمہ کا یہ ترجمہ پڑھا ہے، انھوں نے اس ترجمے کو بے مثال ترجمے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ نہ صرف میر کے صحیح تفہیم میں معاون ہوگا بلکہ وہ صدف فاطمہ کے ان عالمانہ حواشی کا جو اس ترجمے پر انھوں نے لکھے ہیں، فارسی ترجمہ کررہے ہیں وہ دقتِ نظری کا ثبوت دیتے ہیں۔ امیدہےکہ انجمن’ ذکرِ میر‘ کے اس حصے کے ساتھ آئندہ فارسی متن کے ساتھ اس لیے شائع کردے گی کیوں کہ اس سے اس متن کے فارسی داں لوگوں کے لیے بھی تفہیم آسان ہوجائے گی۔
جلسے کا افتتاح سے پہلے سفیرکبیر نے انجمن کی لائبریری میں ان مخطوطات کی نمائش کا افتتاح کیا اور وہاں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کاش ہندستان میں اردو اور فارسی کی ہر لائبریری ایسی ہی مثالی ہوجائے۔
جلسے کا کلیدی خطبہ فارسی کے عالم شریف حسین قاسمی صاحب نے پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو میں اب تک میر پر ایسا کوئی شمارہ شائع نہیں ہوا جو اردو ادب کے اس مثالی نمبر کے ہم پلہ ہو۔ انھوں نے ایرانی سفیر سے درخواست کی کہ انہیں اس شمارے میں دنیا کی ہر اس لائبریری میں پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں علومِ شرقیہ اور فارسی کے طالبِ علم ہوتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے یہ بھی کہا کہ انجمن ترقی اردو (ہند) کی لائبریری کو چند ہزار باقی ماندہ اردو اور فارسی کتب کو بھی نور مائیکروفلم کو اس سلیقے سے ڈیجیٹائز اور ایسی ہی خوب صورت جلدبندی کرنی چاہیے جو نور مائیکرو فلم سنٹر کا اختصاص ہے۔سفیر کبیر نے اپنی تقریر جو کہ قاسمی صاحب کے بعد کی تھی اس لیے انھوں نے وعدہ کیا کہ ایران کلچر ہاؤس ان کے تمام مشوروں پر جلد ہی عمل شروع کرے گا۔
انجمن ترقی اردو (ہند) کے لائف ٹرسٹی اور ماہرِقانون اور سابق وزیرخارجہ سلمان خورشید صاحب نے کہا کہ ان کے نانا ڈاکٹر ذاکر حسین نے عمر بھر ادارہ سازی ہی کی اور جس عزت و احترام کے ساتھ کی اس پر انجمن کو اس وراثت پر ناز ہے ۔ انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اسلامیہ کالج کے ذخیرے کو ذاکر صاحب نے ہی علی گڈھ منتقل کیا تھا اور اس میں ’ذکرِمیر‘ کا اہم ترین متن بھی تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنے گھر میں انجمن کا نام ذاکر صاحب کی اس تحریک کے حوالے سے سنا تھا جس میں انھوں نے 20 لاکھ سے زیادہ دستخط جمع کرکے صدرِجمہوریہ کو پیش کیے تھے مگر کبھی انجمن سے میرا رابطہ نہیں رہا اور اب جب اس ادارے کو بغیر کسی سرکاری گرانٹ کے گاندھی جی اور ذاکر صاحب کی خواہش کے مطابق عزتِ نفس اور استغنا کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ بزرگ جہاں بھی ہوں گے، خوش ہوں گے۔
پروفیسر اخترالواسع نے پروفیسر شریف حسین قاسمی کی تجاویز اور سفیر کبیر ایران کے ذریعہ انھیں منظور کرنے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کا میر تقی میر نمبر مطالعاتِ میر میں نئی عمارت کی سنگ بنیاد ہے۔ انھوں نے انجمن کی تمام ترقی اور ان تاریخ ساز کاموں کو نہایت خاموشی سے اور بغیر اردو کے مجاہد کی امیج بنانے کی کوشش کے بغیر صوفیوں کی طرح کام کرنے والے صوفی صفت اطہر فاروقی کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس ادارے کے لیے اپنی صحت بھی برباد کرلی۔ انھوں نے اس پر زور دے کر کہا کہ انھیں امید ہے کہ سلمان خورشید صاحب اور ایران کلچر ہاؤس کا مشترک دل چسپی کے کاموں میں تعاون جاری رہے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔