[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ہر سال یوم القدس غاصب صہیونی حکومت کے خلاف ایک تحریک کی شکل میں ظہور کرتا ہے۔ حضرت امام خمینی کی مدبرانہ سوچ کے تحت یوم القدس منانے کا اعلان کیا گیا۔ یوم القدس نے اپنے ابتدائی اہداف سے آگے بڑھ عالمی سطح فسلطینیوں کے حق میں انصاف اور ان کے ساتھ یکجہتی کی علامت کا روپ دھار لیا ہے۔ اس سال عالمی یوم القدس کے موقع پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جائے گا۔ اسی لئے اس سال یوم القدس کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
فسلطینیوں کے حق میں دنیا بھر سے آواز بلند کرنے والے متحد ہورہے ہیں اور 75 سالوں سے صہیونیوں کے مظالم کا شکار فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے۔ بیت المقدس فلسطینی عوام کی استقامت کا نمونہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ فلسطینیوں کا جہاد اور مقاومت عالمی حریت پسندوں کے لئے درس ہے۔ مقاومت نے ایک ناقابل شکست تحریک کی شکل اختیار کی ہے۔عالمی یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر میں مقاومت کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے گااور اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں اتحاد اور یکسوئی نظر آئے گی۔ کیونکہ یہ ایک روایتی دن نہیں بلکہ ایک اخلاقی او ر انسانی معاملہ ہے جس کی وجہ سے سب کی ضمیر اس کی اہمیت کو قبول کرتی ہے۔
مقاومت نے انسانیت، آزادی اور مقاومت کے محور پر وسیع حرکت شروع کی ہے۔ مذہب اور نسل سے بالاتر ہوکر کرامت اور عدالت خواہوں کی طرف سے ایک اعتراض اور احتجاج بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمع ہوکر صہیونی جنایت کاری کے مقابلے میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور مذہب اور ذات سے بالاتر ہوکر مقاومت کی حمایت اور صہیونی مظالم کی مخالفت کا اعلان کرتے ہیں۔
فلسطین کی آزادی کی جدوجہد ایک کثیر الجہتی جدوجہد ہے جو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے منفرد انداز میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے اکٹھا کرتی ہے۔ انصاف اور انسانی وقار کی اس لڑائی میں ہر آواز، عمل اور یکجہتی کا مظاہرہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے اجتماعی عزم کی تصدیق کرتا ہے۔
تاریخی طور پرمغربی ممالک کی پالیسی لڑاو اور حکومت کرو کے اصول پر مبنی رہی ہےجس کا بنیادی ہدف لوگوں کے اتحاد کو توڑنے اور علاقوں کے کنٹرول، انتظام اور نوآبادیات اور ان کے وسائل کو لوٹنا ہے۔ تاہم مزاحمتی بلاک کے ابھرنے اور اس محور کی حمایت کرنے والی قوموں کی وجہ سے یہ حکمت عملی بڑی حد تک ناکام ہو گئی ہے۔ لبنان، یمن، عراق اور شام کے نئے محاذوں کا آغاز خطے کے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک اہم پیشرفت ہے، جو خطے میں اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی فعال موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔مقاومت کے متحرک ہونے سے مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہوگئی ہے۔
اس سال عالمی یوم قدس کے موقع پر دنیا بھر میں لاکھوں افراد فلسطین، لبنان، یمن، عراق، شام اور ایران میں مزاحمتی تحریکوں کے لیے اپنی وسیع حمایت کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تحریکیں آزادی کی جدوجہد کی علامت ہیں اور بیت المقدس کے وقار، عزت اور دفاع کے لیے تیار ہیں۔
عالمی یوم قدس صرف ایک عارضی اجتماع نہیں ہے بلکہ صہیونی قبضے اور جارحیت کے خلاف عالمی یکجہتی کا زندہ مظہر ہے۔ یہ اجتماعی بیداری عالمی استکبار کی جانب سے عوام کوتقسیم کرنے کی کوششوں کے مقابلہ میں اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ مزاحمت کے احترام اور اس کی عزت اور خودمختاری کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا مسلسل اظہار ہے۔
عالمی یوم قدس مقاومت کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن لمحہ بننے کے دہانے پر ہے۔ یہ دنیا بھر کے لوگوں کو جغرافیائی، ثقافتی اور مذہبی تقسیم سے بالاتر یکجہتی کے اظہار میں ایک ساتھ کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ اجتماعی موقف مزاحمت کے پائیدار جذبے اور محکومیت اور تقسیم سے انکار کا ثبوت ہے، اور ان تحریکوں کی حمایت کے لیے مشترکہ عزم کا اعادہ کرتا ہے جو اپنے لوگوں کو آزاد کرنے اور ان کے وقار اور آزادی کے ساتھ جینے کے حقوق کا دفاع کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس طرح لڑاو حکومت کرو یا تقسیم کرو حکومت کرو کی پالیسی نہ صرف میدان جنگ میں شکست سے دوچار ہوگئی ہے بلکہ لوگوں کے ذہنوں سے بھی یہ پالیسی اپنے اثرات کھوچکی ہے۔
یہ تبدیلی بیت المقدس اور غزہ کے لیے انصاف اور آزادی کی طرف ایک وسیع تر رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس طرح عالمی یوم قدس عالمی اتحاد اور ان لوگوں کی حمایت کی مضبوط علامت کے طور پر ابھررہا ہے جو ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق اور اقدار کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
تجزیہ کار: محمد علی صنوبری