ماہ رمضان کے بارہویں دن کی دعا اور مختصر تشریح

[]

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ رمضان المبارک کے بارہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اے معبود! آج کے دن مجھے پردے اور پاکدامنی سے زینت دے اس میں مجھے قناعت اور خود داری کے لباس سے ڈھانپ دے اس میں مجھے عدل و انصاف پر آمادہ فرما اور اس میں مجھے ان چیزوں سے امن دے جن سے ڈرتا ہوں اپنی پناہ کے ساتھ، اے ڈرنے والوں کی پناہ۔

اَللّٰھُمَّ زَیِّنِّیْ فِیْہِ بِالسِّتْرِ وَالْعَفَافِ وَاسْتُرْنِیْ فِیْہِ بِلِبَاسِ الْقُنُوْعِ وَالْكَفَافِ وَاحْمِلْنِیْ فِیْہِ عَلَی الْعَدْلِ وَالْاِنْصَافِ وَاٰمِنِّیْ فِیْہِ مِنْ كُلِّ مَا ٲَخَافُ بِعِصْمَتِكَ یَا عِصْمَۃَ الْخَائِفِیْنَ

ستر اور عفت مومن کی زینت

اس دعا میں ان صفات حسنہ کی اللہ سے خواہش کی جارہی ہے جو انسان کے لئے زینت اور زیور  اور اس کے عیوب اور نقائص کو چھپاتی ہیں۔ پہلی درخواست یہ ہے کہ خدایا! مجھے ستر اور عفت سے زینت اور آراستہ کرے۔ ستر کے معنی پردہ، سایہ بان اور ہر وہ چیز ہے جو انسان کی حفاظت کرتی ہے۔ عفاف کا مطلب یہ ہے کہ انسان گناہ اور معیوب کاموں میں مبتلا نہ ہوجائے اور برے کام انجام نہ دے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں عفت فقر کی زینت ہے اگر فقیر اپنی آبرو کی حفاظت کرے تو اس کی غربت دوسروں کی امیری سے بہتر ہے اسی لئے بارہویں دن کی دعا میں خدا سے ستر  کی درخواست کرنے کے ساتھ حیا اور عفت طلب کرتے ہیں۔

دعا کے اگلے حصے میں پڑھتے ہیں: وَاسْتُرْنِیْ فِیْہِ بِلِبَاسِ الْقُنُوْعِ وَالْكَفَافِ اس میں مجھے قناعت اور خود داری کے لباس سے ڈھانپ دے۔

قناعت کا لباس

قناعت یہ ہے کہ انسان اللہ کی عطا پر راضی ہوجائے اور اسی پر اکتفاء کرے۔ اگر اپنی ضرورت پر اکتفا کرے تو قناعت سے کام لیا۔ بعض اوقات قناعت کی غلط تشریح کی جاتی ہے مثلا کم کھانا، پرانے گھر میں رہنا، زندگی میں تنگی لانا وغیرہ۔ قناعت کی یہ صحیح تفسیر نہیں ہے بلکہ قناعت اللہ کی عطا پر راضی ہونے کا نام ہے۔ پس اگر اللہ چھوٹا گھر دے تو اسی پر اکتفا کرے، متوسط لباس عطا کرے تو اسی پر راضی رہے یعنی زیادہ کا لالچ نہ کرے۔ اگر انسان ہمیشہ زیادہ کی خواہش اور تمنا کرے تو مایوسی اور ناامیدی کی زندگی گزارتا ہے۔ یہ قناعت کے خلاف ہے اسی لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے قناعت اور رضایت کی نعمت عطا کرے۔

وَاحْمِلْنِیْ فِیْہِ عَلَی الْعَدْلِ وَالْاِنْصَافِ اس میں مجھے عدل و انصاف پر آمادہ فرما۔

عدل اور انصاف معنی تقریبا نزدیک ہیں۔ عدل یعنی انسان حد کے اندر رہ کر کام کرے جس میں نہ افراط ہو اور نہ تفریط یعنی ہر کام کا حق ادا کرے اور اعتدال سے کام لے۔

عدل کے دو پہلو ہیں؛ الف اپنے آپ سے عدالت یعنی ہر ذاتی کام عدالت کے مطابق ہو مثلا اللہ کی عبادت عدالت ہے کیونکہ عبادت اللہ کا حق ہے۔ ب۔ دوسروں کے ساتھ عدالت یعنی معاشرے اور اس میں رہنے والوں کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش آئے۔ معاشرے میں رہنے والوں کے ساتھ ان کے حق کے مطابق سلوک کرے۔ پس صرف ظلم اور ستم نہ کرنا عدالت نہیں بلکہ عدالت یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔

انصاف کے معنی نصف کرنے کے ہیں۔ یعنی جتنی مقدار یا حصہ دینا چاہئے، عطا کرے نہ کم نہ زیادہ۔

اللہ تعالی قرآن کریم میں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے اسی لئے ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ خدایا! مجھے زندگی میں عدالت اور انصاف سے کام لینے کی توفیق عطا فرما۔

وَاٰمِنِّیْ فِیْہِ مِنْ كُلِّ مَا ٲَخَافُ بِعِصْمَتِكَ یَا عِصْمَۃَ الْخَائِفِیْنَ اور اس میں مجھے ان چیزوں سے امن دے جن سے ڈرتا ہوں اپنی پناہ کے ساتھ، اے ڈرنے والوں کی پناہ

مثبت خوف

انسان کئی چیزوں سے خوف کھاتا ہے بہتر ہے کہ انسان اس نقص سے ڈرے جو اس کے ایمان کے لئے مضر ہے۔ دوسرے انسانوں اور دنیوی امور سے ڈرنا مذموم ہے مثلا غربت، بیماری یا دشمن سے ڈرنا۔ انسان کو ان چیزوں سے خوف نہیں کھانا چاہئے بلکہ صرف خدا سے ڈرنا چاہئے۔ اس جملے میں ہر چیز سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیزیں جن کی وجہ سے ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے۔ گناہوں میں مبتلا ہونے یا برے انجام سے دوچار ہونے سے ڈرنا چاہئے اس طرح کا خوف مستحسن ہے اسی لئے دعا کرتے ہیں کہ خدایا! ہر اس چیز سے مجھے محفوظ رکھ جن سے میں ڈرتا ہوں۔

آخری جملے میں اللہ کی عصمت اور نگہبانی سے متوسل ہوتے ہیں کہ خدایا! تو نے اپنے اوپر بندوں کی نگہبانی فرض کی ہے پس مجھے بھی ان چیزوں سے محفوظ رکھ۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *