ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

[]

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

کانگریس کے جیالے قائد راہول گاندھی نے الکٹورل بانڈس کو دنیا کا سب سے بڑا اسکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے ہفتہ وصولی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی جانب سے یونیک آئی ڈی نمبر کی اجرائی کے بعد یہ اسکام کھل کر سب کے سامنے آجائے گا اور اس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ دعویٰ کہ ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ زبردست جھوٹ ثابت ہوچکا ہے۔ اس اسکام کے منظر عام پر آجانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی نام نہاد ساکھ پوری طرح برباد ہوجائے گی اور عوام لوک سبھا کے چناؤ میں اُسے کڑی شکست سے دوچار کریں گے۔ ایک تازہ ترین اور معتبر سروے کے مطابق انڈیا ایلائنس کم از کم 297 سیٹس حاصل کرے گا جبکہ این ڈی اے کو 206 نشستیں اور دیگر کو 40 نشستیں حاصل ہوں گی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے بانڈس سے متعلق یونیک آئی ڈی نمبر نہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے یا پھر وہ حکمران جماعت کو بچانا چاہتا ہے۔ شمال مشرق سے تعلق رکھنے والے لاٹری کے ایک بے تاج بادشاہ کے اڈوں پر ای ڈی نے چھاپے مارے تو اس نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین بار الکٹورل بانڈس خریدے۔ صاف لگتا ہے کہ ان بانڈس کی خریدی کے پیچھے مخصوص وجہ تھی یعنی وہ حکمران جماعت کو خوش کرنا چاہتا تھا ۔ ورنہ ایک مجرم جمہوریت کو مضبوط کرنا کیوں چاہے؟ کہا جاتا ہے کہ لاٹری کے اس شہنشاہ نے سب سے زیادہ الکٹورل بانڈس خریدے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق 2017 سے لے کر 2023 تک جس سیاسی جماعت نے سب سے زیادہ یعنی 6,566کروڑ روپئے وصول کئے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی تھی۔ کانگریس کو 1,123 کروڑ روپئے حاصل ہوئے۔ سب سے کم عطیہ سماج وادی پارٹی کو ملا یعنی اس کے حصہ میں صرف 14 کروڑ روپئے آئے۔ بہرحال ایک آدھ دن میں ساری تصویر صاف ہوجائے گی۔ الکٹورل بانڈس کے افشا سے سب سے زیادہ نقصان بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا کیونکہ اسے صاف ستھرے ڈھنگ سے عطیہ جات نہیں ملے بلکہ کسی نہ کسی بدعنوانی کے تحت ہی اس کے خزانے میں یہ روپئے جمع ہوئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے ہی اندرونی جھگڑوں سے دوچار تھی اور الکٹورل بانڈ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ الکٹورل بانڈس سے ہٹ کر لوک سبھا کے چناؤ کے منظر پر نظر ڈالی جائے تو بہت سارے چونکا دینے والے فیصلے عوام کے سامنے آئیں گے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر ریونت ریڈی کی حیدرآباد میں دی گئی افطار پارٹی میں مجلس اتحادالمسلمین کے صدر کی تقریر ایک سیاسی جنگ کی طرح لگتی ہے جہاں انہوں نے چیف منسٹر سے خواہش کی کہ ہم دونوں کیوں نہ نفرت کے خاتمہ کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔ یعنی وہ دبے لفظوں میں مشترکہ طورپر بی جے پی کو شکست دینے کی بات کہہ رہے تھے۔ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو یقینا وہ بہار میں 7 سیٹوں پر چناؤ نہیں لڑیں گے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس سے ایک صحت مند تبدیلی ہی کہا جائے گا۔ بی جے پی بہار میں اور مہاراشٹرا میں سیٹوں کا بٹواڑہ نہیں کر پارہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسے ان دو ریاستوں میں زبردست ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ سیاسی ماہرین کا یہ تاثر ہے کہ سی اے اے سے بھی بی جے پی کو ہی نقصان ہوگا۔ اپوزیشن اس قانون کے منفی اثرات کو بخوبی واضح کررہا ہے جس سے ہندو اور مسلم دونوں ہی طبقات متفق ہورہے ہیں۔ بی جے پی کی زنمبیل بری طرح خالی ہوگئی ہے۔ فرقہ پرستی کے سارے ہتھیار ختم ہوگئے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر ہوجانے اور نام نہاد سی اے اے آجانے کے بعد اب کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں بچا ہے جسے وہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھا پائیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام مذہبی رہنماؤں کو جذباتی نعروں سے اجتناب کرنا ہوگا تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک نئی فضا پیدا ہوسکے۔ جس کے چلتے چناؤی رنگ وکاس پر مبنی ہو نہ کی فرقہ پرستانہ خیالات پر۔ راہول گاندھی کی جانب سے چلائی گئی محبت کی سیاست کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ ملک مضبوط و مستحکم ہوسکے۔ کسی بھی ملک میں جذباتی دراڑ کا پڑنا کوئی اچھی علامت نہیں مانی جاتی ہے۔ جذباتی بگاڑ ملک کو توڑنے کے مترادف ہوتا ہے جس سے ہمیں حتی الامکان دور رہنا ہوگا۔ راہول گاندھی نے نفرت پر محبت کی فتح کے حصول کے لئے جو جنگ چھیڑی ہے وہ آسان نہیں ہے اس کے بارے میں تو یہی کہنا پڑے گا کہ
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجیے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *