[]
ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد
اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت اور اس کی تعلیمات کے پھیلائو کی ذمہ داری ہر مسلمان کے سر پر ہے البتہ اس کی ادائیگی کے سعادت اُن ہی لوگوں کے نصیب میں آتی ہے جن کو حق تعالیٰ کی طرف سے چُن لیا جاتا ہے‘ ہر زمانے اور ہر علاقے میں ایسے افراد اس کام میں مصروف رہے ہیں۔ کسی نے قلم سے‘کسی نے زبان سے‘ کسی نے درس وتدریس سے تو کسی نے اپنی عملی زندگی کے ذریعہ یا فیضان صحبت سے یہ فریضہ انجام دیا اور جس کا سلسلہ موجودہ دور میں بھی جاری ہے گو کہ انداز اور طریقۂ کا ربد لا ہوا ہے‘ حالات تبدیل ہوچکے ہیں زمانہ کے تقاضے کچھ اور ہیں ۔
تاہم اپنے اوپر عائد ذمہ داری کی تکمیل سب پر لازم ہے۔ اس بارے میں زمانہ ماضی پر نظر ڈالی جائے تو ایسے بہت سارے کردار‘ بہت ساری شخصیتیں ہمیں نظر آتی ہیں جنھوں نے عوام و خاص ‘ راعی ورعایا سب کو اپنی خدمات جلیلہ سے متاثر کیا ہے۔ خصوصاً سرزمین ہند ایسے روشن ستاروں سے بھری پڑی ہے جن کا اثر صدیاں گذرجانے کے باوجود ہم آج بھی دیکھتے ہیں خاص طور سے سلسلۂ چشتیہ کے اکابرین نے محبت و خلوص کے ساتھ تعلیمات دینِ مبین کو پھیلانے میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے اس کا اثر چپہ چپہ پر نظر آتا ہے خصوصیت کے ساتھ خواجۂ خواجگان ‘ تاجدار اجمیر‘ عطائے رسول‘ سلطان الہند‘ نائب النبی ‘ ھند الولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ جیسے آفتابِ افقِ چشت کی اس سرزمین ہند پر تقریبا (۹) صدی قبل آمد کے بعد آپ کی ضیاء بارکرنوں نے ایسا نور بکھیر ا ہے کہ جس سے ایک سنہری کڑی ظہور پذیر ہوئی جسے ارض ِ ہند میں چشتی خواجگان کی پہچان مانا جاتا ہے۔
آپ کے خرمن فیض سے بے شمار اکابر واصاغر نے فیض پایا لیکن اُن میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کو بحیثیت سر حلقہ خلفاء و جانشین امتیازی شان کا حامل مانا جاتا ہے جو دہلی کے علاقہ مہر ولی میں قطب مینار کے قریب آرام فرماہیں جن کا مزار پُر انوار مرجع خلائق و منبع فیضان بنا ہوا ہے آپ سے جن نفوس قدسیہ کو فیضان ِ چشت ملا اُن بے شمار افراد میں حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ المعروف بہ ’’ بابا فرید‘‘ نے ایک زمانہ کو مستفید فرمایا جو سرزمین پاک پٹن میں اپنے مزار شریف سے آج بھی چشتیہ سلسلہ کی خیرات تقسیم فرمارہے ہیں آپ سے ایک طرف حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ؒ نے اکتساب فیض کیا تو دوسری طرف آپ کے ہمشیر زادے حضرت سید علی احمد صابر پاک ؒ نے دولت ونعمت ِ خلافت پائی ان دونوں سے چشتیہ سلسلہ کی الگ الگ شاخیں علی الترتیب نظامی و صابری سے موسوم ہوکر آج تک جاری وساری ہیں ۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کو جب کبھی خطرہ لاحق ہواتو اہل سیاست اور ان کے اردگرد رہنے والوں نے وہ کام نہیں کئے جو کام اللہ کے خاص بندوں نے اپنی خانقاہوں میں بیٹھے بیٹھے کردیا۔ جب کبھی اسلام کے اقدار پامال ہوتے نظر آئے اور اس کو سہارادے کر اس کی حفاطت کی ضرورت پیش آئی تو اہل اللہ اور صوفیہ نے خاموشی سے اپنا کام کردیا اور اہل اقتدار دیکھتے ہی رہ گئے جن صوفیہ و مشائخ نے ملت اسلامیہ کی خمیدہ اور پیچ دار زلفوں کو سنوارا ان میں ایک نام حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ کے پیر و مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ نے دہلی میں تبلیغ و ہدایت کے منصب پر جب آپ کو مامور فرمایا تو ان نامساعد حالات میں جبکہ سلطان شمس الدین التمش کی وفات ہوچکی تھی بہت سارے اہل علم موقع سے فائدہ اٹھا کر میدان سیاست میں کود پڑے تھے تاہم آپ نے سیاسی بکھیروں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے دین حق کی خاطر وہ شاندار خدمات انجام دیں کہ تاریخ کے صفحات پرآج تک نہایت روشن نظر آتی ہیں۔
آپ سلسلہ چشتیہ کے مشاہیر اولیاء میں سے ہیں تمام تذکرہ نگار اس پر متفق ہیں کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ صحیح النسب فاروقی ہیں آپ کے والد خواجہ جمال الدین سلیمان کاحضرت سیدنافاروق اعظم ؓ سے سلسلہ نسب جا ملتا ہے۔ اس طرح آپ پدری سلسلہ سے فاروقی ہیں البتہ مادری سلسلہ سے عباسی کہلاتے ہیں۔
چونکہ کم سنی ہی میں آپ کے والد کا سایۂ عاطفت اُٹھ چکا تھا اس لئے آپ کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدئہ ماجدہ جو خود علم و فضل میں مقام رفیع کی حاصل تھیں نے فرمائی آپ نے ابتدائی تعلیم کھتوال میں حاصل کی اور مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے ملتان بھجوادئے گئے۔ آپ نے سب سے پہلے حفظ قرآن کی تکمیل فرمائی اور پھر ایک روز ملتان کی مسجد منہاج الدین میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے وہیں قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ تشریف لے آئے اب جو بابا فرید کی حضرت قطب الدین سے نظریں چار ہوئیں تو عجیب کیفیت ہوئی فوراً وابستہ داماںہوگئے اور جب حضرت قطب الدین ؒ دہلی کے لئے روانہ ہونے لگے تو بابا فرید بھی ساتھ ہولئے قطب الاقطاب ؒ نے علوم ظاہری کی تحصیل و تکمیل کی تاکید فرمائی تو پانچ سال تک قندھار ‘ غزنی بغداد میں علم حاصل کرتے رہے اور سند فضیلت حاصل کرلی۔
وہاں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ‘ شیخ بہاء الدین حمویؒ ‘ شیخ فرید الدین محمد نیشاپوریؒ وغیرہ کی خدمت میں برابر حاضر ہوتے رہے اور فیض پاتے رہے۔ اس کے بعد اپنے مرشد گرامی کے پاس دہلی آگئے تو حضرت قطب الاقطابؒ نے فرمایا ’’خوب ہوا تم اپنا کام پورا کرکے میرے پاس آئے‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’جب اس بندہ حقیر خادم درویشاں کوحضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی نعمت قدمبوسی حاصل ہوئی تو آپ نے اسی وقت کلاہ چہار ترکی میرے سرپر رکھی اس مجلس میں قاضی حمید الدین ناگوریؒ ‘ مولانا علاء الدین کرمانی ؒ‘ اور بہت سے دوسرے درویش موجود تھے۔ پھرحضرت قطب الاقطابؒ نے آپ کو مجاہدات کی ہدایت کی تو آپ مصروف مجاہدہ ہوگئے اور ہفتہ میں ایک دن ملنے جایا کرتے تھے پھر مرشد گرامی نے روزہ رکھوا دیا اور فرما یا کہ جب غیب سے ملے تو کھانا چھہ روز گذرگئے تھے بھوک سے بے حال تھے کہ سنگریزوں کو اٹھاکر اضطراب میں منہ میں رکھ لیا وہ شکر ہوگئے اسی روز سے گنج شکر خطاب ہوا۔ (سیر الاولیاء)
گنج شکر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے مختلف روایات لکھی ہیں تاریخ فرشتہ کے مطابق نماز کی پابندی کرانے کے لئے بچپن میں آپ کی والدہ ماجدہ جائے نماز کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیتیں اور کہتی تھیں کہ نماز پڑھنے والوں کو جائے نماز کے نیچے سے روزانہ شکر مل جاتی ہے ایک دن والدہ پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ یاد آنے پر گھبراکر پوچھا مسعود کیا تم نے نماز پڑھی؟ جی امی جان نماز پڑھی اور شکر بھی کھالی بابا فریدؒ نے جواب دیا۔ وہ بڑی حیران ہوئیں اور سمجھ گئیں کہ بچے کی غیبی امداد ہوئی ہے چنانچہ اسی وقت سے گنج شکر کہنا شروع کردیا۔
اخبارالاخیار ‘ خزینۃ الاصفیاء کی رو سے ایک سوداگر اونٹوں پر شکرکی بوریوں کو لادے ہوئے ملتان سے دہلی جارہا تھا راستہ میں جب آپ سے ملاقات ہوئی تو پوچھا اس میں کیا لدا ہوا ہے۔ اس نے ٹالنے کے لئے کہا نمک ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا اچھا نمک ہی ہوگا منزل پر پہنچ کر سوداگر نے جب بوروں میں نمک پایا تو پریشانی کی حالت میں واپس حضرت کے پاس حاضر ہوکر معذرت چاہی۔ آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا بری بات ہے آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنا اور فرمایا بوروں میں شکر تھی تو ان شاء اللہ تعالیٰ شکر ہی ہوگی‘ سوداگر نے جھوٹ سے توبہ کی اور بوروں کو دیکھا تو ان میں شکر بھری ہوئی تھی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شکر جو گنّے (نیشکر)سے بنائی جاتی ہے اوراس کا بنایا جانا ہزاروں سال سے جاری ہے کو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے حالات میں بیان کئے جانے سے بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آج سے زائد از (۸۰۰)سال قبل اس شکر کا وجود تھا؟جو حضرت با با فرید سے منسوب کرامات اور واقعات میں ہم کو ملتا ہے تو اس کے جواب میں یہی کہا جائے گاکہ شکر کی تیاری کا سلسلہ بھارت (انڈیا) میں پہلی صدی عیسوی کے بعد سے ہی شروع ہوچکا تھا جس کی تفصیلات wikipedia پر فراہم کردہ معلومات سے حاصل کی جاسکتی ہے اس وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیوں کہ موجودہ دور میں اہل السنت والجماعت کے متفقہ عقیدہ ’’کرامات اولیاء اللہ حق ‘‘ کا انکار کرتے ہوئے نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ ’’بابا فرید کے زمانہ میں جو ۸۰۰ سال پرانا ہے شکر بننا شروع ہی نہیں ہوئی تھی تو پھر ان کے حالات میں شکر کا ذکر ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ اس طرح نو خیز نسل کو گمراہی کے راستہ پر ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عھد بابا فرید ؒ سے بھی ایک ہزار سال پہلے شکربننے لگ گئی تھی۔
المختصر مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد بابافریدؒ ہمہ وقت تبلیغ اسلام او ر خدمت خلق میں مصروف رہنے لگے ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت قطب الاقطاب ؒ وصال فرماچکے ہیں بیدار ہوتے ہی دہلی روانہ ہوگئے۔ حضرت قطب الاقطاب ؒ نے خرقہ خلافت‘ عصا ومصلی ونعلین چوبین (لکڑی کے کھڑاویں)اور دیگر تبرکات قاضی حمید الدین ناگوری ؒ کے سپرد کئے اور وصیت کی کہ میرا جانشین فریدالدین مسعود ہوگا اور یہ سب تبرکات اسی کو دیدئے جائیں۔ آپ نے ہلی میں کچھ دن قیام فرمایا اور پھر ہانسی تشریف لے گئے ایک مدت تک وہاں قیام پذیر رہے شیخ جمال الدین ہانسویؒ جو عرصہ سے مجاہدہ اورریاضت میں مشغول تھے کو بابا فرید نے اپنی باطنی توجہ سے درجہ کمال تک پہنچایا اور سند خلافت دے کر انھیں ہانسی میں ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی اور خود اجودھن کی طرف چل پڑے جہاں کفر و شرک میں ڈوبی مخلوق کا یہ علاقہ مدت سے باران رحمت کا منتظر تھا۔
قصبہ کے اطراف دور دور تک کفار اور مشرکین آباد تھے۔ آپ نے اس جگہ کوقیام کے لئے پسند فرمایا اور ایک درخت کے نیچے اپنا مصلی بچھا دیا اور مشغول یادالٰہی ہوگئے۔ اس کے قریب بہتے نالے کے کنارے آپ ایک پاک جگہ بیٹھ کر وضو یا غسل فرمایا کرتے تھے اجودھن کے لوگ اس جگہ کو پاک لوگ کا پٹن کہتے اور اس جگہ کا ادب کرتے تھے دھیرے دھیرے کثرت استعمال سے اس پورے علاقہ کو پاک پٹن پکارا جانے لگا۔ آپ کے سیرت نگاروں نے لکھا کہ ایک تنگدست نے آپ سے اپنی تنگدستی کی شکایت کی تو آپ نے اسکے لئے دعاء فرمائی اور ہر روز رات کو سونے سے قبل سورئہ جمعہ پڑھنے کی ہدایت دی۔ آپ کو سماع کا بہت ذوق تھا اور اکثر دوران سماع بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ایک مجلس میںآپ کے روبرو ’’سماع ‘‘کی حلت و حرمت پر گفتگو ہوی تو فرمایا سبحا ن اللہ کوئی جل کر راکھ ہوجائے اور دوسرے ابھی اختلاف ہی میں ہیں اور فرمایا سماع انھیں کے لئے روا ہے جو اس میں ایسے مستغرق ہوں کہ ایک لاکھ تلواریں ان پر ماری جائیں یا ایک ہزار فرشتے ان کے کان میں کچھ کہیں تو بھی ان کو خبر نہ ہو۔
غذا کی پاکی یعنی اکل حلال سے متعلق آپ کے بارے میں سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ دستر خوان پر دعاء پڑھنے کے بعد بابا فرید نے لقمہ اٹھایا مگر فوراً ہی واپس رکھدیا اور فرمایا کہ لقمہ وزنی ہے کوئی شبہ والی بات معلوم ہوتی ہے۔ یہ سن کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کھڑے ہوئے اوردست بستہ عرض کیا حضور لکڑیاں تو حضرت مولانا بدرالدین اسحٰق لائے ہیںاور پانی مولانا حسام الدین نے بھراہے اور ان کو جوش میں نے دیا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ لقمہ کس وجہ سے بھاری اور وزنی ہے حضرت بابا فرید نے یہ سن کر ایک لمحہ کے لئے غور کرنے کے بعد دریافت فرمایا: سالن میں نمک جوڈالا گیا ہے وہ کہاں سے آیا؟ سنتے ہی حضرت نظام الدین نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا حضور کی ذات گرامی کاشف حالات ہے یہ خطا مجھ سے سرزد ہوئی آج خانقاہ میں کچھ موجود نہ تھا اس لئے دیگ میں نمک قرض لے کر ڈالا گیا ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا :بابا اچھا اب اس کھانے کو دوسرے فقراء میں تقسیم کردو اور فرمایا فقراء فاقہ سے مرجائیں تو بہتر ہے لیکن لذت نفس کی خاطر انھیں کسی سے قرض نہیں لینا چاہئے۔ اگر ادا نہ ہو تو اس کا وبال قیامت تک مقروض کی گردن پر رہے گا۔
ماہ ذو الحجہ ۶۶۳ھ کے آخری ایام میں بیماری نے شدت اختیار کرلی اورآپ کو بے ہوشی کے دورے ہونے لگے لیکن اس کے باوجود آپ کی کوئی نماز حتیٰ کہ نفلی عبادات تک قضاء نہ ہوئی محرم ۶۶۴ھ م(1265ء) کی چار تاریخ کو بعد از نماز مغرب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی نماز عشاء باجماعت ادا کی اور آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی ہوش آنے پر پوچھا میں نے عشاء پڑھ لی بتایا گیا جی ہاں تو فرمایا پھر ایک مرتبہ پڑھ لوں ‘ دوبارہ اور پھر سہ بارہ آپ نے نماز عشاء ادا کی او رفرمایا ممکن ہے پھر موقع نہ ملے۔ نماز عشاء مع وتر ادا کی اور تازہ وضو کیا پھر حالت سجدہ ہی میں ایک مرتبہ زور سے یاحی یاقیوم کہتے ہوئے (۹۵) سال کی عمر میں واصل بحق ہوے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کو خبر ملی تو وہ پاک پٹن تشریف لے آئے مزار شریف تعمیر کروایا اس اہتمام کے ساتھ کہ ہراینٹ پر ایک قرآن پاک کا دور ختم کیا پاک پٹن کے مقام پر جوفی الحال پڑوسی ملک پاکستان میں واقع ہے اور اس وقت ہندوستان کا مغربی حصہ تھامیں آپ کا مزار گہربار زیارت گاہ خلائق ہے۔ (ماخذ: سیر الاولیاء‘ راحت القلوب‘ محفل اولیاء ودیگر کتب تذکرہ)
٭٭٭