طوفان الاقصیٰ مسئلہ فلسطین کا احیاء

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 7 اکتوبر کی صبح فلسطینی مزاحمتی فورسز نے ایک درست اور مربوط کارروائی میں غزہ کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے اس پٹی کے اطراف میں موجود مقبوضہ بستیوں میں داخل ہو کر آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں 5000 سے زائد راکٹ اور میزائل داغے اور تقریباً 300 صیہونیوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو گرفتار کیا۔

اس زبردست کاروائی کے دوران صہیونی فوجیوں کی سادہ کپڑوں میں فرار ہونے کی تصاویر، سرحدی فوجیوں کی ہلاکت یہاں تک کہ سرحدی چوکیوں پر اسرائیلی ٹینکوں کی تصاویر نے صہیونی رجیم کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ڈیٹرنس کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

یہ کارروائیاں صہیونی فوج کے خلاف ایک زبردست منصوبے کی شکل میں کی گئیں۔ 

عبرانی اخبار Haaretz کے عسکری تجزیہ کار، Amos Hareil نے انکشاف کیا: “غزہ کی پٹی کے ارد گرد  تعینات اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے وقت 400 تھی اور ان کے ساتھ 12 ٹینک بھی تھے جب کہ اس دن مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد 300 سے زیادہ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس علاقے میں تعینات تمام فوجی مارے گئے یا پکڑے گئے۔

صیہونی رجیم کی سیکورٹی ناکامی اور فلسطین کا منظرنامہ

طوفان الاقصیٰ آپریشن فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں بے مثال اقدام تھا جس کے نتیجے میں دیرپا کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اس زبردست اور فیصلہ کن آپریشن نے فلسطینی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے آرمی یونیورسٹیوں کے طلباء کی گریجویشن تقریب سے خطاب میں فرمایا: اس واقعے میں صیہونی غاصب حکومت کو عسکری اور انٹیلی جنس دونوں لحاظ سے ناقابل تلافی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب نے کہا ناکامی ہوئی ہے جب کہ میرا زور ناقابل تلافی پر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس تباہ کن زلزلے نے غاصب حکومت کے بنیادیں ہلا کر رکھ دیں جنہیں اتنی آسانی سے دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ 

غاصب رجیم اس ناقابل تلافی نقصان کو اپنے مغربی حامیوں کی طرف سے ملنے والی تمام حمایت کے باوجود پورا نہیں کر سکے گی۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ سات اکتوبر کے بعد سے صیہونی حکومت اب سابقہ   صیہونی حکومت نہیں رہی اور اسے جو دھچکا لگا ہے اس کی اتنی آسانی سے تلافی نہیں ہو سکتی۔

فلسطینی مزاحمتی قائدین کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کا ہدف مسجد اقصیٰ کو بچانا، غزہ کی پٹی کا محاصرہ کم کرنا اور اپنے قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ حماس نے طوفان الاقصی کے 100ویں دن کے موقع پر کہا کہ ناجائز قبضے کے خلاف فلسطینی قوم کی جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوئی تھی، بلکہ یہ 105 سال کے قبضے کے دوران شروع ہوئی تھی۔ یعنی 30 سال برطانوی استعمار کے تحت اور 75 سال صیہونی حکومت کے مشترکہ قبضے کے دوران۔

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ صیہونیت کے جرائم کے جواب میں دنیا ہماری قوم سے کیا امید رکھتی ہے؟” مسجد اقصیٰ  پر صیہونیوں کے منصوبوں سے نمٹنے کے لیے اس قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ 

مغربی کنارے پر قابض صہیونیوں کے اقدامات اور فلسطینی قوم کو بے گھر کرنے کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطینیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو جیلوں سے آزاد کرانے کے لیے اس قوم کے پاس مزاحمت کے علاوہ اور کونسا راہ حل ہے؟

فلسطینی سروے اینڈ پولیٹیکل اسٹڈیز سینٹر (PSR) نے طوفان الاقصیٰ کے بارے میں ایک جائزہ رپورٹ نشر کی جس میں 81 فیصد فلسطینیوں نے طوفان الاقصیٰ کی حقیقی وجہ مسجد اقصیٰ کی حمایت اور قیدیوں کی رہائی بتائی۔ اس کے ساتھ ہی 77 فیصد لوگ طوفان الاقصیٰ کو درست فیصلہ سمجھتے ہیں۔

طوفان الاقصی مسجد اقصیٰ کو یہودیانے، بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضے، ناجائز بستیوں کے قیام اور محاصرے کو جاری رکھنے کے صہیونی اہداف کے سامنے ایک سنگین رکاوٹ تھا۔ اس آپریشن نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کو عملی میدان میں زندہ کردیا۔

نتیجہ

7 اکتوبر کی کاروائی نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر نہ صرف عرب اور عالم اسلام کے اولین مسئلے میں بدل دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی خصوصی توجہ ملی۔ 

7 اکتوبر کے بعد میڈیا اور سیاست دانوں نے ایک بار پھر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور صیہونی حکومت کے قبضوں پر توجہ دینے کی ضرورت جیسے مسائل کی یاد دہانی کرائی۔
 
نیز، طوفان الاقصیٰ آپریشن سے صیہونی حکومت کی سکیورٹی اور معیشت کو زبردست دھچکا لگا۔گذشتہ 5 مہینوں میں صیہونی حکومت کی معیشت اور داخلی سلامتی پر اس طوفان کے اثرات واضح اور نمایاں ہیں۔

اس زبردست حملے کو دیگر مزاحمتی کھلاڑیوں کے صیہونی حکومت پر حملوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 

مثال کے طور پر حزب اللہ کے بے مثال اقدامات اور سرحدی لائن کو عبور کرنا صہیونی ڈیٹرنس کو توڑنے کی ایک حقیقی مثال ہے۔ 

تل ابیب اب مقبوضہ علاقوں اور لبنان کے سرحدی حالات کو 7 اکتوبر سے پہلے کے حالات پر واپس لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

7 اکتوبر کی سب سے بڑی کامیابی اور ہدف یہ تھا کہ تل ابیب کی ڈیٹرنس پاور کو تبدیل کیا جائے اور فلسطین، غزہ اور لبنان کی سرحد تک صہیونی جارحیت کو ناکام بنا دیا جائے۔ اس آپریشن کے فلسطین کاز کے مستقبل پر بھی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *