[]
یروشلم: غزہ میں حماس اور اسرائیل فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امریکی دباؤ کے درمیان فلسطین کے صدر محمود عباس نے محمد مصطفیٰ کو فلسطین اتھارٹی کا نیا وزیراعظم مقرر کردیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ اقدام امریکا کے غزہ میں جنگ کے بعد کے وژن کے سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کے لیے دباؤ کے پیش نظر اٹھایاہے، جس میں مقبوضہ بیت المقدس سمیت فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں گورننس کی بہتری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
محمد مصطفیٰ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں ایک ٹیکنو کریٹک حکومت کی سربراہی کریں گے جو غزہ کے ایک حتمی ریاست کے درجے تک پہنچنے سے قبل ممکنہ طور پر اس کا انتظام چلا سکے گی۔
لیکن ان منصوبوں کو بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی شدید مخالفت، اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری وہ جنگ شامل ہے، جس کا بظاہر خاتمہ دکھائی نہیں دے رہا۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار 341 فلسطینی شہید اور 73,134 زخمی ہو چکے ہیں، حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
محمد مصطفیٰ نے امریکہ میں معاشیات کی تعلیم حاصل کی اور وہ ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ فروری میں فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے غزہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد محمود عباس نے حکومت کو تحلیل کر دیا، تب سے اب تک محمود عباس کی ’الفتح‘ پارٹی مغربی کنارے کا انتظام چلا رہی ہے اور غزہ کی انتظامیہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا قیام 1990 میں آیا تھا اور اسے حتمی ریاست کی جانب ایک پہلا قدم تصور کیا گیا تھا لیکن امن مذاکرات بار بار ناکام ہوئے جس کے نتیجے میں حماس نے 2007 میں محمود عباس سے غزہ میں اقتدار چھین لیا تھا اور اس کے محدود اختیارات کو آبادی کے بڑے مراکز تک محدود کر دیا جو اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کا تقریباً 40 فیصد حصہ ہیں۔