[]
اگر آزاد ہندوستان کی تاریخ پر نظرڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ملک کے زیادہ تر وزرائے اعظم کا تعلق ریاست اترپردیش ہی سے رہا ہے جو قبل ازیں یو۔پی کے وزرائے اعلیٰ تھے۔ ان میں خصوصاً پنڈت جواہر لال نہرو‘ لال بہادرشاستری‘ اندراگاندھی (دوبار) چودھری چرن سنگھ اور چندرشیکھر تھے۔ ایک مختصر عرصہ کے لیے دوبارہ گلزاری لال نندا بھی وزیراعظم رہے۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ دلی کے اقتدار کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر گزرتا ہے۔ بہن مایاوتی کا تعلق بھی اترپردیش سے ہے اور وہ چار بار اترپردیش کی وزیرِ اعلیٰ رہیں اور ان کا دور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے مشہور ہے۔
وہ ایک منصف مزاج حکمراں رہی ہیں۔2010ء میں جب وہ اترپردیش کی وزیراعلیٰ تھیں‘ انہوں نے ایک اسٹیشن ہاؤز آفیسر کو ملازمت سے برخاست کردیا تھا کیوں کہ اس نے پولیس اسٹیشن میں ایک دلت خاتون کو مار پیٹ کی تھی اور یہ واقعہ سوشیل میڈیا میں وائرل ہوگیا تھا۔ علی الصبح بہن مایاوتی نے دستورِ ہند کے آرٹیکل(311) کے تحت خاطی عہدیدار کو ملازمت سے برطرف کردیا اور اس پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔
بہن مایاوتی مسلمانوں اور دلتوں کی چہیتی رہنما ہیں‘ وہ انصاف پسند ہیں اور ظلم کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتیں۔ لیکن مسلمانوں اور دلتوں کے ووٹس کی تقسیم کی وجہ سے ان کی پارٹی بکھررہی ہے ‘ پھر بھی مسلمانوں اور دلتوں پر ان کا گہرا اثر ہے۔
ایسے اوقات میں جب یہ دیکھا جارہا ہے کہ بی جے پی کے مضبوط قلعہ میں دراڑیں پڑرہی ہیں اور امیدوار بی جے پی کو اپنا ٹکٹ واپس کرکے انتخاب لڑنے سے انکار کررہے ہیں۔ بی جے پی صرف مسلم اور دلت ووٹس کو تقسیم کرکے ہی دوبارہ برسراقتدار آسکتی ہے اور اگر یہ دونوں ووٹ بینکس سلامت رہیں تو بی جے پی کی شکست یقینی ہے۔
اگرانڈیا اتحاد زبردست سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کو اتحاد میں شامل کرلے اور بہن مایاوتی کووزیراعظم کا چہرہ بناکر عوام کے سامنے پیش کرے تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے اور زعفرانی حکومت کے خیموں میں بھگدڑ مچ جائے گی۔ وہ دلت نوجوان جن کو راشٹریہ سیوک سنگھ اپنی تنظیم میں شامل کر گمراہ کررہی ہے اور انہیں ریالیوں میں شامل کرکے فسادات کروارہی ہے ‘ اس حقیقت کو جان لیں گے کہ دھرم کے نام پر ان کا استحصال کیا جاتا رہا اور ان کو کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ انہیں اپنی شاکھا میں برابری کا درجہ نہیں دیا گیا اور ان کو صرف ہندو مہرہ بناکر استعمال کیا گیا۔ اگر ایسا ہوجائے جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے تو دلت نوجوانوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد اس مذموم تنظیم سے اپنا ناطہ توڑلے گی اور قومی دھارے میں شامل ہوجائے گی۔ اس طریقۂ کار کی ضرورت صرف ہندی بیلٹ میں ہوگی جہاں مسلمانوں اور دلتوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے اور جن کے متحدہ ووٹس سیاسی توازن کو بگاڑسکتے ہیں۔ بی جے پی صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ووٹس پر ہی انحصار کرے گی اور جو نتیجہ ہوگا وہ آپ کے سامنے ہے۔
آج دلتوں اور مسلمانوں سے ناانصافیوں کا یہ حال ہے کہ وہ 100 عہدیدار جوP.M.O سے سارے ملک کا انتظام چلاتے ہیں ان میں97 عہدیداروں کا تعلق اعلیٰ ذات کے طبقات مثلاً برہمن ‘ کائستھ ‘ راجپوت سے ہے اور جو تین فیصد ہیں ان کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے جن کو غیر اہم پوسٹس پر مامور کیا گیا ہے یا بہ الفاظِ دیگر ایک کونے میں بٹھادیا گیا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ صرف چار فیصد اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ہی ملک چلارہے ہیں۔ وزیراعظم ملک نہیں چلاتا‘ وہ اپنے مشیروںاور معتمدین کی رائے کے مطابق کام کرتا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شمالی ریاستوں میں38 تا40 فیصد ووٹس تقسیم ہورہے ہیں اور Split کی وجہ سے 31تا32فیصد ووٹس حاصل کرکے بی جے پی اپنا اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔
ایسی باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں گو کہ ان کی تصدیق نہ ہوسکی ‘ یہ کہ مسز سونیا گاندھی مسلسل بہن مایاوتی سے رابطہ میں ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ برف پگھلے گی اور بہن مایاوتی بطورِ وزیراعظم عوام کے سامنے پیش کی جائیں گی جو ملک کی پہلی دلت وزیراعظم ہوں گی اور ان کی اس طرز کی نئی سیاست زعفرانی پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی۔
اس طرح ایک متحدہ محاذ ابھرے گا جس میں سماج وادی پارٹی‘ کانگریس پارٹی‘ راشٹریہ جنتادل (RJD) ‘ شیوسینا ‘ نیشنل کانگریس پارٹی‘ ڈی۔ایم۔ کے ‘ مسلم لیگ شامل ہوں گے۔ ان کا بنیادی مقصد ملک سے آمریت کو ہٹانا اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ان کا پہلا اور بنیادی مقصد مرتی ہوئی ہندوستان کی جمہوریت میں جان ڈالنا ہوگا جس کا گذشتہ دس برسوں میں گلا گھونٹ دیا گیا ۔ ان کا مقصد ان لاکھوں کروڑ روپیوں کے قرض کی رقومات کی واپسی ہوگی جس کو غیر قانوی طریقہ سے چندکارپوریٹس کو بطورِ قرض دیا گیاتھا۔
گزشتہ دنوں پٹنہ میں ایک ریالی ہوئی اور گاندھی میدان میں زائداز بارہ لاکھ افراد نے شرکت کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں آج تک اتنے عظیم پیمانے پر کوئی اجتماع نہیں ہوا۔ یہ بارہ لاکھ افراد کرائے پر نہیں لائے گئے وہ از خود اپنی خوشی اور مرضی سے آئے تھے جو ظاہر کرتا ہے کہ عوام کس قدر موجودہ حکومت سے متنفر ہیں اور اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔
ایسی صورت میں جب کچھ کرو یا مرو کی کیفیت پیدا ہوگئی ‘ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کو کچھ کرنا ہوگا اور بہن مایاوتی فارمولا پر عمل کرنا ہوگا۔ آپ دیکھ لیناصرف یہ اعلان ہی زغفرانی پارٹی میں ایک بحرانی کیفیت پیدا کردے گا اور اس کی سانسیں رک جائیں گی اور اگر نہیں تو یاد رکھنا ہوگا کہ2024ء کا الیکشن آخری الیکشن ہوگا اور ملک میں چین کی طرح (One Party Rule) ہوگا۔ دستور کو سلب کرلیا جائے گا اور نہیں تو صرف چند بنیادی حقوق کو ختم کردیا جائے گا۔ پولیس کو لامتناہی اختیارات دیئے جائیں گے۔ عدلیہ کو مفلوج کردیا جائے گا۔ آزادی چھین لی جائے گی ‘ لکھنے اور بولنے پر پابندی ہوگی۔ یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا۔ ملک کو ہندوراشٹرا بنادیا جائے گا‘ عوام سے حقِ جائیداد چھین لیا جائے گا۔ جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔ UAPA اور نیشنل سیکورٹی ایکٹ جیسے کئی قوانین بنائے جائیں گے۔ روزگار کے مواقع ختم ہوجائیں گے اور عوام کو صرف پانچ کلو اناج دیا جائے گا۔ مسلمانوں کو بے گھر ‘ بے در اور بے نوا کردیا جائے گا ۔ اپوزیشن پارٹی کے لیڈرس کو قید میں ڈالا جائے گا۔ ملک کا جمہوری ڈھانچہ ڈھادیا جائے گا اور وہ سب کچھ ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔