[]
مسجد اقصیٰ کا احاطہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے انتہائی مذہبی اہمیت کا حامل ہے اور یہ اکثر پرتشدد جھڑپوں کا میدان بھی بن جایا کرتا ہے۔
صدر بائیڈن نے رمضان کے آغاز تک جنگ بندی کے امکانات پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہونا ’’مشکل لگ رہا ہے۔‘‘ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ میں عام شہریوں کا تحفظ اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس ساحلی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد سے لے کر اب تک مجموعی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 30,960 تک پہنچ گئی ہے۔
اسرائیل نے ان حملوں کا آغاز عسکریت پسند گروہ کی جانب سے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حملوں میں تقریباﹰ ساڑھے گیارہ سو افراد کی ہلاکت اور اڑھائی سو کو یرغمال بنا لیے جانے کے بعد کیا تھا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق چار ماہ سے جاری اسرائیلی جنگی مہم میں کل 72,524 فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ وزارت نے مزید کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ اور متعدد انسانی تنظیمیں ان ہلاکتوں کی تعداد کو بڑے پیمانے پر قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ غزہ کے 2.3 ملین باشندوں میں سے نصف کے قریب بچے ہیں اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے شہریوں کی اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے موقع پر غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ایسا ہونا ”مشکل لگ رہا ہے۔‘‘ رمضان کا آغاز اتوار یا پیر کی شام متوقع ہے۔ جمعہ کے روز صحافیوں سے بات چیت کے دوران رمضان میں مشرقی یروشلم میں تشدد کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں جو بائیڈن نے کہا، ”میں یقیناً پریشان ہوں۔‘‘
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے سکیورٹی وزیر اتمار بن گویر کے یہ کہنے کے بعد کہ رمضان المبارک کے دوران مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ تک رسائی کو مزید محدود کر دیا جائے گا، فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے فلسطینیوں سے مسجد کی طرف مارچ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس مسجد کا احاطہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے انتہائی مذہبی اہمیت کا حامل ہے اور یہ اکثر پرتشدد جھڑپوں کا میدان بھی بن جایا کرتا ہے۔ حماس کو اسرائیل، امریکہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
اس دوران صدر بائیڈن کا اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جانے کے قریب پہنچے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ اس بارے میں اندازہ امریکی صدر کی ایک سینیٹر کے ساتھ نجی گفتگو کے دوران اس وقت ہوا ، جب بائیڈن کی گفتگو “ہاٹ مائیک” کہلائے جانے والے مائیکروفون کے ذریعے سنی گئی۔
بائیڈن کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا: “میں نے اس سے کہا، ‘بی بی‘ یہ مت دہراؤ – ‘لیکن آپ اور میں یسوع مسیح کی ملاقات کے لیے آنے والے ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ بی بی نیتن یاہو کا عرفی نام ہے۔ اور امریکی طریقہ اظہار میں ”یسوع مسیح کے پاس آؤ‘‘ ایک ایسے ڈرامائی احساس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب کسی کو اپنا راستہ درست کرنا چاہیے۔
اس گفتگو کے بعد امریکی صدر کو متنبہ کیا گیا کہ ان کا مائیکروفون آن ہے۔ اپنی اہم سٹیٹ آف دی یونین کہلائی جانے والی تقریر میں بائیڈن نے اسرائیلی قیادت پر زور دیا کہ وہ غزہ کے لیے امداد کو “سودے بازی کے آلے ” کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرے۔
امریکی محکمہ دفاع ینٹاگون کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی میں امداد پہنچانے کے لیے جو عارضی بندرگاہ بنا رہا ہے اسے مکمل ہونے میں ممکنہ طور پر ”60 دن‘‘ لگیں گے۔ جمعہ کو بات کرتے ہوئے ترجمان نے مزید کہا کہ بندرگاہ کی تعمیر میں تقریباً 1000 فوجی شامل ہوں گے۔ پینٹاگون کے ترجمان ایئر فورس میجر جنرل پیٹرک رائڈر نے کہا کہ اس کے باوجود کسی بھی فوجی کو ساحل پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔
رائڈر نے کہا کہ ایک بار قائم ہونے کے بعد یہ نئی سہولت ”غزہ کے شہریوں کو روزانہ 20 لاکھ سے زائد افراد کوکھانا فراہم کر سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”غزہ میں زمین پر کوئی امریکی افواج نہیں ہوں گی۔‘‘ یہ بندرگاہ اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر تعمیر کی جارہی ہے، جس میں واشنگٹن علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو اپنی سٹیٹ آف دی یونین تقریر کے دوران ایک عارضی بندرگاہ بنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ شدید غذائی قلت کے شکار غزہ کے رہائشیوں کو امداد پہنچائی جا سکے۔
;