رمضان المبارک کس طرح گزاریں؟

[]

رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے ہی والا ہے، جس میں خدا کی رحمتیں اس کے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، جو وقت جتنا قیمتی ہوتا ہے اور جو چیز جتنی گراں قدر ہوتی ہے، اسی قدر اس کی حفاظت اور اس کے حقوق کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے، ریت کے تھیلے سرِ راہ رکھ دیئے جاتے ہیں اور سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی محفوظ مکان اور محفوظ جگہ میں رکھا جاتا ہے، تو آئیے ماہِ مبارک کے لئے ایک نظام العمل بنائیے ! اور اس نظام کے مطابق اپنا وقت گذارئیے ! یہ نظام وقت کی حفاظت کرے گا، نیکیوں کی توفیق میں معاون ہوگا اور اس مہینہ کی سعادتوں اور برکتوں سے دامن مراد بھرنے کے لئے وسیلہ بنے گا ۔

رمضان المبارک کا سب سے اہم عمل روزہ ہے، روزہ کیا ہے ؟ خدا سے محبت اور اس کی خوشنودی کے لئے سب کچھ قربان کردینے کی تربیت، اس بات کا اظہار کہ وہ رب کی چاہت کے آگے نفس کی چاہت کو قربان کردے گا، وہ آخرت کی نعمتوں سے اپنے دامن طلب کو سرفراز کرنے کے لئے اپنے آپ کو دنیا کی شہوات و خواہشات سے بے نیاز کرلے گا، وہ اپنے نفس کے سرکش اور تیز گام گھوڑے کو اپنے قابو میں رکھے گا، کیوںکہ دنیا کی تمام لذتیں معدہ اورنفسانی جذبات کے گرد گھومتی ہیں، روزہ ان دونوں پر کنٹرول کرتا ہے، اور اس کنٹرول کے پیچھے کوئی ظاہری اور مادی طاقت نہیں ہے، صرف خدا کا خوف اور آخرت میں جواب دہی کا احساس ہے، جو روزہ دار کو کھانے پینے سے روکے ہوا ہے، اسی لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم بقدرِ امکان روزہ توڑنے سے بچیں، ہر عاقل، بالغ مسلمان مرد و عورت پر روزہ رکھنا فرض ہے، اس سے صرف حیض و نفاس سے دوچار عورتیں، مسافر، بہت بوڑھے اور مریض جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے مستثنیٰ ہیں، اگر ان اعذار کے نہ ہونے کے باوجود کوئی شخص روزہ توڑے تو سخت گناہ گار ہے اور اتنا بڑا محروم ہے کہ ارشادِ نبوی ا کے مطابق اگر رمضان المبارک کے ایک روزہ کے بدلہ سال بھر بھی روزہ رکھتا رہے، تو اس ایک روزہ کے توڑنے کی تلافی نہ ہوسکے، اس لئے کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ توڑنے سے پوری طرح پرہیز کیجئے ۔

رمضان المبارک کا دوسرا عمل نماز تراویح کا اہتمام ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دنوں مسجد نبوی میں یہ نماز ادا فرمائی ہے، پھر اس اندیشہ سے مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا کہ کہیں یہ نماز اُمت پر فرض نہ ہوجائے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ اُمت کے لئے باعث ِمشقت ہوگا، امام ابوحنیفہؒ، مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس بات پر متفق ہیں کہ تراویح کی نماز بیس رکعت ہے، نیز حضرت عمر فاروق ؓکے زمانہ سے لے کر آج تک حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح کا معمول رہا ہے، اس لئے مسنون یہی ہے کہ بیس رکعت تراویح ادا کی جائے، بعض اہل علم آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں، اس اختلاف رائے کو باہمی نزاع اور جھگڑے کا سبب نہ بنانا چاہئے ؛ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ آٹھ رکعت پڑھنے والے ہوں، اگر امام بیس رکعت پڑھائے تو وہ آٹھ رکعتوں کے بعد الگ ہوجائیں اور اگر امام آٹھ رکعت پڑھتا ہوتو جو لوگ بیس رکعت پڑھنے والے ہیں، وہ امام کے پیچھے پڑھ کر باقی بارہ رکعت الگ پڑھ لیں ؛ لیکن اس مسئلہ کو اُمت کے درمیان نزاع کا ذریعہ نہ بنائیں، ہاں ! تراویح پڑھنے کا ضرور اہتمام کریں ؛ کیوںکہ اس ماہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی مقدار بڑھ جایا کرتی تھی اور نمازِ تراویح کے ذریعہ یہ سنت پوری ہوتی ہے، بعض حضرات تراویح میں قرآن مجید مکمل ہونے کے بعد نمازِ تراویح کا اہتمام ہی ختم کردیتے ہیں، یہ درست نہیں ہے، کیوںکہ تراویح سنت ِمؤکدہ ہے اورقرآن مجید کا مکمل کرنا مستحب، نماز مستقل عمل ہے اور نماز میں قرآن مجید کی تکمیل ایک الگ عمل ۔

رمضان المبارک کا تیسرا اہم عمل قرآن مجید کی تلاوت ہے، اس ماہ میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہِ مبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے، گویا ماہ رمضان نزولِ قرآن کی یادگار اور اس کی سال گرہ ہے، تلاوتِ قرآن کی اہمیت کا حال یہ ہے کہ اس کتاب کے ایک حرف کو پڑھنے پر بھی دس نیکیاں حاصل ہوں گی، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھنے والوں کو اہل اﷲ اور اﷲ تعالیٰ کے خاص بندے قرار دیا ہے : اھل القرآن ھم اھل اللّٰه وخاصتہ (الترغیب والترہیب: ۲؍۵۴) یہ قرآن قیامت کے دن قرآن والوں کے لئے سفارشی بن کر کھڑا ہوگا :’’القرآن شافع ومشفع‘‘ اس لئے تلاوتِ قرآن مجید کا اہتمام تو ہمیشہ ہونا چاہئے ؛ لیکن رمضان المبارک میں تلاوت کا خصوصی اہتمام مطلوب ہے، دن و رات میں سے کوئی وقت گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ کا تلاوت کے لئے مخصوص کرلیجئے، ظہر کے بعد عصر کے بعد، سحری سے پہلے، یا فجر کے بعد، جو وقت مناسب حال ہو، عام طورپر نصف گھنٹہ میں تو ایک پارہ مکمل ہوہی جاتا ہے، اس گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ میں کچھ وقت تلاوت کے لئے رکھیئے اور باقی اوقات میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیجئے، جو ترجمہ مستند و معتبر ہو، اس سے قرآن سے آپ کا رشتہ مضبوط ہوگا ۔

تلاوتِ قرآن مجید کے اس نظام کو رمضان المبارک تک محدود نہ کیجئے ؛ بلکہ سال بھر کا معمول بنالیجئے اور وقت اپنی سہولت سے طے کیجئے، حضرت عبداﷲ بن عمر و بن عاصؓ کا معمول روزانہ روزہ رکھنے اور پوری شب قرآن مجید کی تلاوت کا تھا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی، آپ نے ان سے استفسار کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قرآن پڑھتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : ہاں ! اے اﷲ کے نبی ! لیکن میرا ارادہ اس سے خیر اورنیکی ہی کا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ تمہارے لئے ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا کافی ہے، اوررہ گیا قرآن تو ہر ماہ میں ایک ختم کرلیا کرو، کہنے لگے کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپؐ نے فرمایا : بیس دن میں ختم کرلو، میں نے عرض کیا : اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو ارشاد ہوا کہ سات دن میں ختم کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو ؛ اس لئے کہ تم پر تمہاری بیوی کا، آنے والوں کا، اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے ۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۱۹۷۸، مسلم، حدیث نمبر: ۱۱۶۸)

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تلاوتِ قرآن مجید کی کیا اہمیت ہے ؟ اور اسلام کا مزاجِ اعتدال بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی حسب ِسہولت مقدار کا انتخاب کرے ؛ لیکن ہمیشہ پڑھا کرے، شاید اسی سات دن کی مناسبت سے بعد کے اہل علم نے قرآن کو سات منزلوں پر تقسیم کردیا ہے کہ روزانہ ایک منزل پڑھی جائے تو ہفتہ میں ایک بار ختم ہوجائے اور کچھ اور وقت گذرنے کے بعد لوگوں کی تن آسانی کو دیکھتے ہوئے تیس پارے کردیئے گئے ؛ تاکہ روزانہ ایک پارہ پڑھے تو ارشادِ نبویؐ کے مطابق مہینہ میں ایک ختم ہوجائے۔

رمضان المبارک کا چوتھا اہم عمل نفل نمازوں کا اہتمام ہے، ارشادِ نبویؐ کے مطابق اس ماہ میں نفل عبادتوں کا اجر فرض عبادتوں کے برابر کردیا جاتا ہے، اس لئے اس ماہ میں نفل نمازوں کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے، نفل نمازوں میں کچھ وہ ہیں جو متعین اوقات میں پڑھنے کی ہیں، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، نمازِ زوال، اوابین، تہجد، سورج نکلنے اور سورج ڈھلنے کے درمیانی وقت کو دو حصوں میں تقسیم کردیں، تو پہلا نصف اشراق کا وقت ہے اور دوسرا نصف صلاۃ الضحیٰ کا، جسے نمازِ چاشت بھی کہتے ہیں، ان نمازوں کو کم سے کم چار رکعت پڑھنا چاہئے، اس سے زیادہ پڑھنا چاہیں تو حسب سہولت ادا کرسکتے ہیں، جب آفتاب نصف آسمان پر ہو، تو کسی نماز کا پڑھنا مکروہ ہے، اور حدیثوں میں اس کی صراحت موجود ہے، جب آفتاب مغرب کی طرف ڈھل جائے تو کراہت ختم ہوجاتی ہے، وقت مکروہ کے ختم ہونے کے بعد دوگانۂ نفل ادا کرنا بھی حدیثوں میں منقول ہے، اسی کو شارحین حدیث نے ’’صلوٰۃ الزوال ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، مغرب کے بعد جو نفل نماز پڑھی جاتی ہے وہ ’’ اوابین ‘‘ ہے، عام طورپر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھ رکعت اوابین ادا کرنے کا معمول تھا، نماز عشاء اور فجر کے درمیان تہجد پڑھی جاتی ہے، نوافل میں یہ نماز فرض کے درجہ میں تھی، تہجد کی نماز چار رکعت سے سولہ رکعت تک پڑھنا آپؐ سے ثابت ہے، عام معمول آٹھ رکعت پڑھنے کا تھا، کوشش کرنی چاہئے کہ رمضان میں ان تمام نمازوں کو پڑھیں ؛ لیکن خاص کر تہجد کا اہتمام ضرور ہی کرنا چاہئے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد رمضان المبارک میں بہت طویل ہوجاتی تھی، یہاں تک کہ صحابہؓ کو بعض دفعہ سحری چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا، اور ماہِ مبارک میں روزہ داروں کے لئے اس نماز کا ادا کرنا بھی آسان ہے، سحری کے لئے اُٹھنے والے اگر سحری کھانے سے پہلے چند رکعتیں تہجد پڑھ لیں تو تہجد ادا ہوجائے گی، اسے بھی روزہ داروں کو اپنے معمول کا حصہ بنانا چاہئے ۔

رمضان المبارک کا پانچواں خصوصی عمل ’’دُعاؤں کا اہتمام‘‘ ہے، رمضان اور حج یہ دو مواقع ایسے ہیں جن میں دُعاء کی قبولیت اور استجابت کے خصوصی اوقات کثرت سے ہیں، سحری کے وقت، افطار کے وقت، تلاوت قرآن کے بعد، آخری عشرہ کی طاق راتوں میں دُعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں ؛ اس لئے رمضان المبارک میں دُعاؤں کا بھی معمول رکھنا چاہئے، اپنے لئے اپنے اعزہ کے لئے مرحومین کے لئے، پوری اُمت ِمسلمہ کے لئے اور دنیا و آخرت کے لئے، خدائے قدیر کے سامنے دست ِسوال پھیلانا چاہئے، اور دُعاء کے آداب کی پوری رعایت کرتے ہوئے اﷲ سے مانگنا چاہئے، عام طورپر افطار کا وقت لوگ افطار کی تیاری اورانواع و اقسام کی غذائی اشیاء جمع کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور بیچاری خواتین کا تو پورا وقت محض پکوان کرنے میں چلاجاتا ہے، یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے ۔

رمضان المبارک میں خاص طورپر انفاق کی ترغیب دی گئی ہے، انسان جب خود بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو دوسرے فاقہ کشوں کی بھوک و پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے، اسی لئے خاص طورپر رمضان المبارک میں اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے اور اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے، حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک میں آپؐ کا انفاق تیز ہوا سے بھی زیادہ ہوتا تھا، خاص طورپر رمضان المبارک میں لوگوں کو افطار کرانے کی آپؐ نے فضیلت بیان فرمائی اور ارشاد ہوا کہ جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے، افطار کرنے والے کے اجر میں کمی کئے بغیر افطار کرانے والے کو اس کے روزہ کے برابر اجر حاصل ہوگا ۔

عام طورپر یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ لوگ سیاسی لیڈروں کو، بڑے تاجروں اورکاروباریوں کو اور سماج کے خوشحال لوگوں کو افطار پر مدعو کرتے ہیں اور خود ان کے پڑوس میں جو غریب اور مفلوک الحال لوگ ہوتے ہیں ان کو پوچھتے تک نہیں، یہ اسلامی تعلیمات کی روح اور افطار کے سلسلہ میں جو ترغیب دی گئی ہے، اس کے مقصد کے خلا ف ہے، دعوتِ افطار سبھوں کو دی جاسکتی ہے، مسلم ہو یا غیر مسلم، دولت مند ہو یا غریب ؛ لیکن جو غرباء ہوں، ان کو ترجیح دینا چاہئے اور انھیں خاص طورپر مدعو کیا جانا چاہئے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کے بارے میں فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے، آپؐ کی یہ تعلیم صرف ولیمہ کے لئے مخصوص نہیں تھی ؛ بلکہ اس کا مقصد اس دین کے مزاج و مذاق کو بتانا اور زندگی کے تمام مواقع پر اس اُصول کو برتنا ہے ۔

یہ ہے روزہ داروں کے لئے رمضان المبارک کا نظام العمل، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ دار اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہ سے بچائے اور بالخصوص زبان کے گناہوں، غیبت، بہتان تراشی، جھوٹ، جھوٹی گواہی وغیرہ سے، کہ یہ روزہ کو ضائع کردیتے ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے اور ان گناہوں سے نہ بچنے والے کے بارے میں فرمایا کہ انھیں محض بھوک و پیاس ہی حاصل ہوتی ہے : کم من صائم لیس لہ إلا الجوع والعطش۔

آئیے! ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس مبارک مہینہ کو رمضان المبارک کے اس نظام العمل کے مطابق گذار رہے ہیں ؟ اور نہیں، تو آنے والے دنوں کو اسی نظام کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں ۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *