عربی ’’حلوے‘‘ کے بھوکے جنونی

[]

اس واقعے کے بعد خاتون کا معافی مانگنا اور علماء کا قبول کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ لباس پر اگر لفظ خوبصورت لکھا ہو تو کیا معافی اسے مانگنی چاہیے جس نے زیب تن کر رکھا ہے یا اسے جس نے سمجھے بغیر اسے مقدس آیت تصور کیا اور ایک خطرناک صورتحال پیدا کرنے کا مرتکب ہوا؟ صحیح یا غلط کہنا تو شاید مشکل ہو مگر یہ عقلمندانہ عمل ضرور ہے تاکہ عوام کی تسلی ہو سکے اور خاتون کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گذشتہ دنوں سوش میڈیا پر ایک ویڈیو میں کسی نے ذکر کیا تھا کہ بنگلہ دیش میں دیواروں کے ساتھ کوڑا کرکٹ پھینکنا اور مردوں کا دیواروں کا بطور بیت الخلا کے استعمال سے اجتناب کے لیے بنگالی میں عبارات ہر جگہ پائی جاتی تھیں مگر عوام خاص خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ کسی کو یہ ترکیب سوجھی کہ یہ عبارات عربی میں لکھنا شروع کر دیں اور چند ہی دنوں میں خاطر خوا بہتری دیکھنے کو ملی۔ لہذا اس منطق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی جان بچانی چاہیے اور جیسے ان خاتون نے آئندہ ایسا لباس پہنے سے توبہ کی ہے، سب کو ہی کر لینی چاہیے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب پر عمل کرنے والوں سے زیادہ مذہب کے نام پر مارنے والے لوگ حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس قدر ممکن ہو خود سمجھیں اپنی اگلی نسل کو سمجھائیں مگر احتیاط علاج سے بہتر ہے سو جان بچے تو لاکھوں پائے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *