[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ جنگ کا پانچواں مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صیہونی حکومت اس جنگ میں وحشت ناک نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے جس کے نتیجے میں 28 ہزار سے زائد افراد شہید جب کہ 68 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کینیڈین تجزیہ کار مائیکل بریچر نے اپنی کتاب ’’کرائسس ان ورلڈ پولیٹکس‘‘ میں بحران کی تعریف ایک ایسی صورت حال سے کی ہے جس میں ممالک کی اہم اقدار اور مفادات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور جب کوئی بحران آتا ہے تو حکومتوں کو سرپرائز (ناگہانی صورت حال) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مائیکل بریچر بحران کی شدت اور حد کا تعین کرنے کے لیے چھے اشاریوں پر غور کرتے ہیں جو کہ جغرافیائی اہمیت، بحران کا موضوع، کھلاڑیوں کے درمیان تشدد، ان کی کثرت، بڑی طاقتوں کی غیر مساوی مداخلت اور اس کی غیر متناسب سطح وغیرہ ہیں۔
غزہ کی جنگ کے طول پکڑنے کا سبب جاننے کے لیے بحران، عدم مطابقت اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح کے تین اشاریوں پر غور کیا جا سکتا ہے۔
1۔ بحران کا مسئلہ
مائیکل بریچر نے کتاب ’’کرائسس ان ورلڈ پولیٹکس‘‘ میں لکھا ہے کہ بحرانوں کے طول پکڑنے کی ایک وجہ وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ غزہ کی موجودہ جنگ میں بحران کا مسئلہ سب سے اہم عنصر ہے جو جنگ کو طول دینے کا سبب بنا وہ طوفان الاقصیٰ آپریشن ہے، جس نے رہبر انقلاب اسلامی کے الفاظ میں صیہونی حکومت کو “ناقابل تلافی شکست” دی اور قابض رجیم کی ڈیٹرنس پاور کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔
صیہونی حکومت کے پاس اعلیٰ فوجی اور انٹیلی جنس طاقت تھی اور وہ مجموعی طور پر ڈیٹرنس پاور کی حامل سمجھی جاتی تھی، لیکن طوفان الاقصیٰ نے اس کے سارے بھرم کو خاک میں ملا دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ رجیم گزشتہ 5 ماہ کے دوران حماس سے اپنے قیدیوں کو رہا کرنے میں بھی ناکام رہی جس نے تل ابیب کی انٹیلی جنس صلاحیت پر مزید سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
جب کہ صیہونی وزیر جنگ یوو گیلنٹ بھاری قیمت کے ساتھ ایک طویل اور مشکل جنگ کی بات کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حماس کو اس کے حملوں کی سزا ملنی چاہیے، چاہے اس میں مہینوں یا سال لگ جائیں۔ لہٰذا تل ابیب کی رائے یہ ہے کہ حماس کو تباہ کیے بغیر جنگ ختم کرنے اور قیدیوں کو آزاد کرنے سے نہ صرف اس کی ساکھ بحال نہیں ہوگی بلکہ اس کی جنگی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی کھوئی ہوئی ساکھ اور شکست کے علاوہ اس رجیم کے وزیر اعظم نیتن یاہو بھی اسرائیل کے سیاسی منظر نامے میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس سروس (امان) کے لیے کام کرنے والے تل ابیب یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر شاؤل کمچی نے نیتن یاہو کو نرگسییت کا شکار خود غرض اور ذہنی مریض قرار دیا ہے جو اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی کر گزرے گا۔ یہ شخص اب اپنی ساکھ کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی زندگی کو بھی خطرے میں دیکھ رہا ہے۔ اس لیے وہ حماس کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کے بغیر جنگ بندی کو قبول نہیں کرتا اور اندرونی فشار اور حتیٰ کہ عالمی رائے عامہ کے دباو کے باوجود جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔
2. فریقین کے درمیان طاقت کا عدم توازن
غزہ کی جنگ کے طول پکڑنے کا ایک اور سبب اور صیہونی حکومت کی نسل کشی کی ایک اہم ترین وجہ متحارب فریقین کی فوجی طاقت میں عدم توازن ہے۔ صیہونی حکومت اور حماس کی فوجی طاقت نہ صرف مساوی نہیں بلکہ قریب بھی نہیں ہے۔ صیہونی حکومت کہ جسے امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے، فوجی سازوسامان کے لحاظ سے تحریک حماس کا اس سے کوئی تقابل نہیں بنتا اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ رجیم خود ہتھیار بناتی ہے اس کے باوجود وہ مغربی طاقتوں سے جدید جنگی آلات بھی حاصل کررہی ہے جب کہ حماس یا فلسطینی مزاحمت ایک چھوٹی عسکری تنظیم ہے جو اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔
لیکن فریقین کی فوجی طاقت میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے صیہونی حکومت نے غزہ پر اندھا دھند بمباری جاری رکھی اور یہاں تک کہ وہ جنگ بندی کی طرف بالکل بھی مائل نہیں ہے۔
غزہ کی جنگ میں یہ بات واضح ہوئی کہ فوجی طاقت اب بھی کسی ملک کی بالادستی کے اہم ترین اجزاء میں سے ایک ہے۔
3. بڑی طاقتوں کی مداخلت
غزہ جنگ کے طول پکڑنے کا ایک اور اہم عنصر اس جنگ میں بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے کردار کی نوعیت ہے۔ مائیکل بریچر نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ بحران کا خاتمہ اس بات پر منحصر ہے کہ بڑی طاقتیں بحران میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر بڑی طاقتیں بحران کو ختم کرنے کی ہمت رکھتی ہیں تو بحران کے خاتمے میں کامیابی کا امکان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ استکباری طاقتیں بالخصوص امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نہ صرف غزہ میں جنگ کو روکنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ انہوں نے انتہائی شرمناک جانبداری سے کام لیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کی نسل کشی ایک جائز دفاع ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن گزشتہ 5 ماہ میں مقبوضہ علاقوں سمیت مغربی ایشیا کا 5 مرتبہ دورہ کر چکے ہیں۔ امریکہ اور دو یورپی ملکوں نے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ روکنے سے متعلق پیش کی گئی تینوں قراردادوں کو ویٹو کر دیا۔
غزہ جنگ میں استکباری طاقتوں کی مداخلت صرف اعلانیہ اور سیاسی حمایت کی شکل میں نہیں تھی بلکہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس غزہ کے خلاف جنگ میں باقاعدہ فریق بن چکے ہیں۔ مغرب کا یہ شرمناک طرز عمل غزہ کی جنگ کو طول دینے کا ایک اہم عامل ہے اور ایسا لگتا ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک یہ استکباری ممالک جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ عزم کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
غزہ جنگ کے جاری رہنے میں عالمی طاقتوں کے علاوہ بڑی علاقائی طاقتوں کا بھی عمل دخل ہے۔ علاقائی طاقتوں کے طرز عمل کا مشاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ عرب ممالک اور ترکی اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت بعض ممالک علاقائی مقابلے کی مناسبت سے حماس کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
غزہ کے بارے میں عرب ممالک کا یہ طرز عمل اور نقطہ نظر اس حقیقت کے باوجود ہے کہ غزہ کے لوگ ان ممالک کے ساتھ مذہب (سنی) اور عرب شناخت میں شریک ہیں لیکن اس کے باوجود مذکورہ عرب آمریتیں امریکہ کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں سے غداری اور خیانت کر رہی ہیں۔
نتیجہ
غزہ جنگ کا پانچواں مہینہ ختم ہونے کو ہے لیکن ابھی تک اس جنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
مائیکل بریچر کے تجزیاتی ماڈل کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت اور نیتن یاہو کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان، حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان طاقت کا عدم توازن، مغربی سامراجی ممالک کی صیہونی رجیم کی حمایت اور عرب ممالک اور ترکی کی عدم دلچسپی غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو طول دینے کی سب سے اہم وجوہات اور عوامل میں سے ہیں۔