[]
مہر خبررساں ایجنسی نے اسٹینفورڈ نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطین کے حامی طلبہ نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں احتجاج کرتے ہوئے طلبہ کے والدین سے ملاقات میں خلل ڈالا۔ تاہم سیکورٹی فورسز ان طلباء کو یونیورسٹی کے اجلاس سے باہر لے گئیں اور ان پر ارتکاب جرم کا الزام لگایا گیا۔
یونیورسٹی حکام نے اعلان کیا کہ ان طلباء کو تادیبی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا جنہوں نے اجلاس کے دوران نعرے بازی کرتے ہوئے پروگرام میں خلل ڈالا۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس کے آغاز کے تقریباً 45 منٹ بعد مظاہرین نے کاغذ کے ٹکڑے بالکونی سے نیچے پھینک دیے، جن پر لکھا تھا “غزہ میں 29000 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں”، “اسرائیل بم برسا رہا ہے اور سٹینفورڈ منافع کمانے کی خاطر فلسطینی بچوں کو خوف زدہ کرنے کے جنگی حربے استعمال کر رہی ہے۔”
طلباء نے یونیورسٹی کے دو اہلکاروں کی تقریر میں خلل ڈالتے ہوئے ” تمہارے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہیں”، “فلسطین کو آزاد کرو” “آزادی زندہ باد، اسرائیلی قبضہ مردہ باد” جیسے نعرے لگائے۔
مظاہرین میں سے ایک “ایڈر” نے اپنے بیان میں کہا کہ طلبہ نے اپنے مطالبات کا اظہار کرنے کے لیے احتجاج میں حصہ لیا جس میں اسٹینفورڈ کے غزہ کی نسل کشی میں ملوث ہونے کی تحقیقات شامل ہیں۔”
مظاہرین کی دیگر درخواستوں میں “اسرائیل کے جنگی جرائم، نسل پرستی اور نسل کشی ” کی حمایت میں ملوث امریکی اداروں اور کمپنیوں پر پابندیاں لگانا، جنگ بندی اور بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کو وسائل زندگی فراہم کرنا شامل ہیں۔