[]
مہر خبررساں ایجنسی، آذر مہدوان بین الاقوامی ڈیسک: تہران میں ترکی کے سفیر حجابی کرلنگیچ نے 24ویں ایران میڈیا ایکسپو میں مہر نیوز ایجنسی کے بوتھ کا دورہ کیا جہاں مہر کے نامہ نگار نے ان کا خصوصی انٹرویو کیا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
مہر نامہ نگار: تہران میں ترکی کے سفیر کی حیثیت سے آپ ایران اور ترکی کے تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ آپ کی رائے میں کن شعبوں میں آپ کو مزید تعاون کی ضرورت ہے؟
ترک سفیر: ایران اور ترکی کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں جو سینکڑوں سالوں سے چلے آرہے ہیں۔ ترکی اور ایران کے لوگوں میں رسم و رواج اور ثقافتی ورثے کے لحاظ سے بہت کچھ مشترک ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات ماضی سے لے کر آج تک جاری ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تعلقات برقرار رہیں گے۔
تہران میں ترکی کے سفارت خانے کی حیثیت سے ہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کی پوری کوشش کریں گے۔
مجھے امید ہے کہ تہران اور انقرہ کے درمیان تعلقات کی سطح میں وسعت آئے گی۔
ایران اور ترکی دونوں میں ہمارے ساتھی دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، نئے سال میں، ہم دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت سی مثبت پیش رفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک ایران کے صدر کا حالیہ دورہ ترکی تھا۔ ہماری رائے میں ایرانی صدر کا انقرہ کا دورہ موئثر رہا جس دوران مختلف شعبوں میں اہم معاہدوں پر دستخط کیے گئے اور مجھے امید ہے کہ ان معاہدوں پر عمل درآمد ہو گا۔
اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے تجارتی حجم کو 30 ارب ڈالر کا ہدف دیا گیا اور اس شعبے میں مزید معاہدے بھی کیے گئے۔
اس کے مطابق ترکی کے ساتھ ہماری تجارت کا حجم تقریباً 8.5 ارب ڈالر ہے، کیا 30 ارب ڈالر کی تجارت تک پہنچنا ممکن ہے؟
بلکل؛ یہ ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں دونوں ممالک کے تعاون اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ کرونا سے پہلے ہمارے ایران کے ساتھ سازگار کاروباری تعلقات تھے۔ صرف کورونا کی آمد کے ساتھ ہی ایران اور ترکی کے درمیان اقتصادی تعلقات کی سطح میں کمی آئی۔ ہم کاروباری تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
جناب سفیر، فارسی زبان و ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے آپ اس میدان میں قابل قدر کام کیا ہے، فارسی زبان و ادب کے حوالے سے سابق سفیر جناب “دریا ارس” کی خدمات بھی قابل تعریف ہیں۔ کیا آپ ایران میں بطور سفیر اس میدان میں سرگرم ہیں؟۔ میری رائے میں ایران کے لیے سفیر کے انتخاب کے معاملے میں ترک حکومت کی پالیسی “ثقافتی سفارت کاری” پر مبنی ہے۔ کیا میرا یہ خیال درست ہے؟
ہمارے ملک کے صدر اور وزرائے خارجہ نے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا مناسب سمجھا جو ایرانی ثقافت سے زیادہ واقف ہوں۔ ایک دوست اور برادر ملک کے طور پر ایران ترکی کے مقبول اور سیاسی معاشرے میں بہت اچھا مقام رکھتا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے جناب دریا ارس اور پھر خود کو تہران میں ترکی کا سفیر منتخب کرانا با مقصد تھا۔ ایک سفیر کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ثقافتی اور دوستانہ شکل دوں۔ یقیناً سیاسی اور معاشی جہت میں بھی سرگرمیاں ہوں گی لیکن ثقافت اور ادب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے بہترین پلیٹ فارمز ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ صیہونی حکومت غزہ جنگ میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکی ہے لیکن وہ اب بھی اس جنگ کو جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ آپ کی رائے میں اسلامی ممالک کو غزہ جنگ اور فلسطینی شہریوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور انھیں کونسی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے؟
بدقسمتی سے اسلامی ممالک نے غزہ میں جنگ روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ بلاشبہ بین الاقوامی فورمز اور اسلامی ممالک کی سطح پر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ غزہ کے عوام کو نسل کشی اور جبری نقل مکانی کے بحران کا سامنا ہے۔ البتہ غزہ میں ہونے والی صورت حال عالمی بیداری کا باعث بنی ہے۔ حالیہ مہینوں میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کے حملے عالمی برادری میں اس کی سیاسی تنہائی کا سبب بنے ہیں۔ بحیثیت اسلامی ممالک ہمیں اس مسئلے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ایران اور ترکی دو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے غزہ میں جنگ روکنے کے حوالے سے بہت اچھی سفارت کاری کی ہے۔ لیکن یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔ ہمیں مزید موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔