[]
مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمیؔ
خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کے حالات کسی اہل نظر اور دور اندیش سے مخفی نہیں ہے، بلکہ حالات کی سنگینی اور ابتری کو وہ دن بہ دن نت نئے زاویوں سے بڑھتے ہوئے محسوس کررہے ہیں،شر پسند عناصر کے خطرناک منصوبوں اور ناپاک عزائم کو مستقبل قریب میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور آنے والے اندیشوں اور خطرات سے ملت کو مسلسل آگاہ اور اسکے بھیانک نتائج سے باخبر کررہے ہیں۔
(CAA)شہریت ترمیمی قانون،اور (NRC) شہریوں کا قومی رجسٹر وغیرہ کے موقع پر ملک کی بدترین صورتحال گذرے زیادہ وقت نہیں گزرا ۔
شاہین باغ احتجاج اور اسکے مظاہرین کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات کو ایک لمبا عرصہ نہیں بیتا حتیٰ کہ آسامی مسلمانوں کے ساتھ؛ NRC کی بنیاد پر کی جانے والی سازش بھی کوئی پرانی بات نہیں ہے لیکن اسکے باوجود اگر ہم بھول گئے تو آج اس ملک کے ہر ہر باشندہ بالخصوص قوم مسلم کے لئے ضروری ہے وہ ایک بار اس بھیانک اور خطرناک منظر کو ذہن میں لائے اور غور کرے کہ اس میں ملک کے باشندوں کو مردم شماری میں وطن کا شہری ثابت کرنا کس قدر ضروری اور اہم ہے۔
2024 کا لوک سبھا الیکشن؛ ہندوستان کی جمہوری تاریخ کا ایک نیا باب: موجودہ فرقہ پرست طاقتوں کے لیے 2024 کے مرکزی الیکشن میں کامیاب ہونا اور پوری مکمل طاقت کے ساتھ اقتدار میں واپس آنا انتہائی اہم اور ضروری ہے کیونکہ اس الیکشن کی کامیابی پر ہی بھگوائی جماعتوں کے ناپاک سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے اور طویل مدتی خطرناک منصوبوں کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے؛ ووٹنگ کو چند مخصوص طبقات کے لئے خاص کردینا، یکساں سول کوڈ ، ون نیشن؛ ون الیکشن، پورے ملک میں CAA کا نفاذ حتی کہ جمہوری ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے ناپاک منصوبے بھی اسی الیکشن پر منحصر ہیں جو اس ملک کے سیکولرزم کے خلاف اور جمہوریت کے منافی ہے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے فرقہ پرست عناصر پوری شدت کے ساتھ 2024 کے الیکشن پر نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں، اور اپنی پوری طاقت 2024 الیکشن کی کامیابی حاصل کرنے پر صرف کررہے ہیں یہ بات ذہن و دماغ سے نکال دیجیے کہ دوبارہ CAA کا قانون نہیں لایا جائے گا، نیز اس بات کے بھرم میں بھی مت رہیے کہ ہمارے ساتھ اب تک کیا ہوا ہے؟ جو اب ہوگا، گذشتہ ستر سال کی طرح ہی ہم اس ملک میں بہ اطمینان و سکون رہ لیں گے نہیں اور ہرگز نہیں سینکڑوں دور اندیش افراد نے ملک اور ہم وطنوں کی روش کو جس تیزی سے تبدیل ہوتے دیکھا ہے ماضی میں اسکی مثال تو دور شاید اسکا تصور بھی نہیں تھا۔
سی اے اے جیسا کالا قانون پاس ہوگیا، پرسنل لا میں مداخلت کی گئی
بابری مسجد قضیہ میں انصاف کے منہ پر کالک ہوتی گئی، اور جمہوریت کے پس منظر میں عوام پر آمرانہ اور جابرانہ قوانین مسلط کئے گئے جسکے لیے ملک گیر احتجاجات ہوئے لیکن کسی پر کچھ اثر نہیں ہوا آج بھی بھگوائی علمبردار اس ملک کے اقلیتوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سی اے اے سے اقلیتوں بالخصوص مسلم کمیونٹی کو کوئی نقصان نہیں، یہ قانون صرف شہریت دینے کے لیے ہے، نہ کہ کسی کی شہریت لینے کے لیے جبکہ وزیر داخلہ بار بار یہ کہتے ہوئے نظر آئے ہیں کہ ’’ہم شہریت ترمیمی قانون سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘، نیز ’’جسے جتنی مخالفت کرنی ہے کرے، لیکن سی اے اے واپس نہیں ہوگا‘‘۔
قارئین کرام ! آپ خود سنجیدگی سے فیصلہ کریں اور سوچیں کہ نفرت کی سیاست کرنے والے حکمرانوں کے لئے بقائے جمہوریت کی کچھ اہمیت ہے بھی یا نہیں ؟ اپنی سیاست کے خاطر شر وفساد کو بڑھاوا دینے والوں سے ہمدردی و باہمی روا داری کی امید رکھی جاسکتی ہے ؟ آستھا کے نام پر انصاف کو پیروں تلے کچل دینے والوں سے منصفانہ سلوک کی توقع ممکن ہے؟
نہیں !تو پھر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انکے مقابلہ کیلئے کمر بستہ ہوجائیں! اور اس نازک دور اور ہر فتن وقت میں اپنے اندر انابت و رجوع الی اللہ کی صفت پیدا کریں نیز جذبات کو بالائے طاق رکھ کر صبر وتحمل اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے خدارا اس ملک کے معتبر دستاویزات کو فوری طور پر درست کرنے کا مکمل اہتمام کریں یہ کام اس وقت فرض عین اور نوافل میں انہماک سے زیادہ ضروری ہے ۔
دستاویزات کی تیاری کیسے کریں!
مندرجہ ذیل اہم کاموں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے :
۱۔ اپنے گھر میں موجود ہر فرد کی تاریخ پیدائش نوٹ کرلیں۔
۲۔ ان تاریخ پیدائش کو تین حصوں میں تقسیم کرلیں۔
الف) وہ جو یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوئے۔
ب) وہ جویکم جولائی 1987 اور 31 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوئے۔
ج) وہ جو 31 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہوئے۔
۳۔ جو لوگ یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوئے ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ یا پاسپورٹ میں سے کوئی ایک لازمی طور پر ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ان کے پاس موجود ہے تو، ان کو پیدائشی طور پر براہ راست ہندوستانی مانا جائے گا۔ ان کو کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
۴۔ یکم جولائی 1987 کے بعد پیدا ہونے والے تمام افراد اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ ضرور موجود ہو۔ اگر ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہے تو:
الف) والدین میں سے کوئی ایک جو جولائی 1987 اور دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوا ہے وہ ہندوستانی ہونا چاہیے۔
ب) ان کے والدین میں سے کسی کا سن پیدائش یا نام، پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ پریکساں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو، وہ بھی نسل کے لحاظ سے ہندوستانی مانے جائیں گے۔ کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
۵۔ 31 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کے والدین اگر (شہریت ایکٹ 1955 کے مطابق) ہندوستانی ہوں اور ان کے نام ان کے سرٹیفکیٹ سے میچ ہورہے ہوں تو وہ بھی نسلا ہندوستانی ہیں۔ کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
مذکورہ تفصیلات کی بنیاد پر ہر شخص اپنے گھرکا جائزہ لے اور ان لوگوں کی فہرست بنالے جن کے پاس پاسپورٹ یا پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔
پاسپورٹ بنوانے کے لیے:
آدھار کارڈ، پین کارڈ اور راشن کارڈ کے ذریعہ پاسپورٹ بنوایا جاسکتا ہے۔ یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے:
الف) اگر آپ کی پیدائش اسپتال میں ہوئی ہے تو، اس علاقہ/ گاؤں/ تعلقہ/ کارپوریشن آفس جائیں جہاں وہ اسپتال واقع ہے اور اپنی تفصیلات کے ساتھ وہاں درخواست دیدیں۔ یہ کام بھی آسانی سے ہوجاتا ہے۔ اس کی فیس صرف ۲۰۰ روپئے ہے۔
ب) اگرآپ گھر میں پیدا ہوئے ہیں تو، نوٹری تصدیق کے ساتھ ایک حلف نامہ تیار کرلیں کہ آپ کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ پھر اسےاپنے گاؤں/ تعلقہ/ کارپوریشن آفس میں جمع کردیں۔ اس آفس سے آپ کو اس بات کا ثبوت فراہم کیا جائے گا کہ آپ کے پاس واقعی میں پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ اس ثبوت کوآپ ڈسٹرکٹ کورٹ میں جمع کروادیں۔ وہاں آپ سے 200 روپئے سالانہ کے اعتبار سے جرمانہ وصول کر کے سرٹیفکیٹ فراہم کردیا جائے گا۔
(بہ شکریہ پی سید ابراہیم ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، چنئی)
یہ کام توکل کے خلاف نہیں بلکہ عین توکل ہے
ان حالات کے باوجود بعض لوگ دستاویزات کی تیاری کو بالکل اہمیت نہیں دے رہے ہیں اور پوچھنے پر یہ بتاتے ہیں کہ یہ کام توکل کے خلاف ہے ایسے لوگوں پر تو بس اللہ ہی رحم فرمائے جو اپنی کسلانیت اور سستی کو توکل کا نام دے کر فی الحال خود بھی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے اور آئندہ اپنے اعزاء و اقارب کے لیے وبال جان کا سبب ہوں گے ؛
لہذا اپنے تمام دستاویزات بالخصوص برتھ سرٹیفکیٹ ،آدھار کارڈ، پان کارڈ، راشن کارڈ، تعلیمی اسنادات، زمینی کاغذات پرانے پاسپورٹ وغیرہ میں ناموں کی غلطیوں کو درست کرنے کی لازمی کوشش کریں اور اسکے ساتھ ساتھ کتاب و سنت پر عمل اور سلف صالحین کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں اسلامی قوانین پر عمل آوری کو یقینی بناتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ حسن سلوک فروغ دیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! اور اس ملک میں امن و امان باقی رہے۔ آمین۔
٭٭٭