[]
داؤد عزیز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء اور رسولوں پر فضیلت کی چند اہم ترین وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کے برعکس آنے والے تمام زمانوں اور اقوام کے لیے مبعوث فرمایا گیا تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے بیشتر، جن کا ذکر قرآن میں ہے، بنی اسرائیل سے تھے، جبکہ باقی اپنے اپنے زمانوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں منصبِ رسالت سے سرفراز فرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ہم نے ہر قوم کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے‘‘۔
یہ بات اہم ہے کہ تقریباً ہر نبی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت اور فضیلت کے مدنظر اپنی قوم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں آگاہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر مذہبی کتب میں تحریف کے باعث یہ پیش گوئیاں یا تو دھندلا گئیں اور یا پھر سرے سے ہی غائب کر دی گئیں۔ دنیا کے قدیم مذہبی صحائف میں یہ پیش گوئیاں ابھی بھی اہلِ نظر کے سامنے ہیں، لیکن اب چونکہ محض تراجم ہی دستیاب ہیں لہٰذا ان کو اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ ایک عام ذہن کے لیے انہیں تلاش کرنا آسان کام نہیں رہا۔
مختلف زمانوں میں صاحبِ علم و نظر نے خاص طور سے اولڈ اور نیو ٹسٹامنٹ کو کھنگال کر تحریف شدہ کتب میں سے بھی چند پیش گوئیاں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دنیا کے سامنے رکھی ہیں، لیکن اتنی تحقیق کسی اور مذہب کی کتب کے بارے میں نہیں ہوئی۔ یہودی اور عیسائی مذاہب سے متعلق تحقیقات اگرچہ فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہیں کیونکہ قرآن کا بیشتر حصہ انہیں سے مخاطب ہے، لیکن دوسرے بڑے مذاہب کی کتب سے صرفِ نظر بھی دانائی نہیں جب کہ ان کے پیروکار بھی یہ دعوٰی کرتے ہوں کہ ان کی کتب بھی آسمانی کلام ہیں، حقیقت میں بائبل سے بھی پرانی مانی جاتی ہیں۔
ذرا غور فرمائیے کہ نظام حیدرآباد دکن کے ضلع دولت آباد (موجودہ نقشے میں اب یہ ضلع اورنگ آباد، مہاراشٹرا میں ہے) میں ہزاروں برس قدیم اجنتا اور ایلورا کے غار ہیں جنہیں ہندو متبرک مانتے ہیں۔ ان میں ہزاروں سال پرانی تصاویر ہیں جو ہندومت کی چند دیومالائیں بیان کرتی ہیں۔ ان میں سے سولہواں غار ’’رنگ محل‘‘ کہلاتا ہے جس میں وشنو (خدا) کے دس اوتاروں (رسولوں) کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے آخری یعنی دسویں اوتار کی صرف سواری کی تصویر ہے جس پر وہ بیٹھ کر آئے گا۔ یہ اس لیے کہ اس وقت ہندوؤں کے مطابق آخری اوتار کا ابھی ظہور نہیں ہوا تھا اور انہوں نے عالمِ کشف میں محض اس کی سواری دیکھی جسے تصویر میں محفوظ کر لیا۔
اس سواری کو وہ ’’کلکی وہان‘‘ یعنی کلکی اوتار کی سواری کہتے ہیں۔ یہ سواری اپنی شباہت میں ہوبہو مستند احادیث میں بیان کردہ سفرِ معراج کی سواری ’’براق‘‘ جیسی ہے۔ مزید یہ کہ کلکی اوتار کا مطلب ’’بت شکن‘‘ بنتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے علاوہ کسی پر پورا نہیں اترتا۔ مزید تصدیق کے لیے مدراس سے جاری ایک انگریزی روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ کا سرورق دیکھا جا سکتا ہے جس کے مونوگرام میں ہاتھی کے ساتھ ’’کلکی وہان‘‘ کی تصویر موجود ہے۔
ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس موجود ’’وید‘‘ انسانی تاریخ میں سب سے پرانا کلام ہے۔ وہ یہ کلام براہ راست خدا سے منسوب کرتے ہیں جس میں ادل بدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگرچہ وہ ذریعہ جس سے یہ کلام انسان تک پہنچا انہیں بھی نہیں معلوم، لیکن اپنے بقول یہ کلام ہزاروں سال سے ان کے سینوں میں محفوظ چلا آ رہا ہے اور اب سے محض دو صدیاں قبل ہی ان کو اکٹھا کر کے کتابی شکل دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں البیرونی، میکس ملر اور اے ڈیو بائیس کے نام اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے سالہا سال محنت کر کے سنسکرت سیکھی اور اس کالم کو کتابی شکل میں محفوظ کیا۔
اگرچہ اصل وید ایک ہی تھا لیکن آج چار وید ملتے ہیں۔ بعض ہندو محققین کے خیال میں چاروں میں سے ایک اصلی ہے، بعض چاروں ہی کو درست مانتے ہیں، اور بعض خیال کرتے ہیں کہ اصل وید چاروں میں تقسیم ہو کر موجود ہے۔ ہندومت کی باقی کتب جیسے ’’پران‘‘، ’’براہمن‘‘ وغیرہ ہیں وہ محض ویدوں ہی کی تفسیریں ہیں اور انہیں ہندو براہ راست آسمانی نہیں مانتے۔
ان چاروں ویدوں کے بغور مطالعہ سے ایسے ایسے مضامین سامنے آتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ان تمام مضامین میں سے محض سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہی اگر بیان کر دیا جائے تو باقی کے بارے میں کوئی وضاحت ضروری نہیں رہے گی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، اور بہت سے صفاتی ناموں میں سے ایک احمد بھی ہے، تو انہی دو ناموں کے چند حوالے درج ذیل ہیں۔ ترجمہ سنسکرت سے اردو میں ہے کیونکہ وید سنسکرت ہی میں موجود ہے۔
(۱) ’’اے محبوب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میٹھی زبان والے، قربانی دینے والے، میں آپ کی قربانیوں کو وسیلہ بناتا ہوں۔‘‘ (رگ وید: کانڈ ۱، سوکت ۱۳ آیت ۳)
(۲) ’’عظیم محمد کی قوت میں اضافہ کے لیے اور پشان (ترجمہ مہدی) جو کہ عظیم حکمران ہے اس کی نعمت ہم بیان کرتے ہیں۔ اے کریم خدا، ہمیں تمام مشکلات سے نجات بخش اور مشکل راستوں سے ہمارا رتھ پار کرا دے۔‘‘ (رگ وید: ۱۔۱۸۔۱۹)
(۳) ’’میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا ہے، سب سے زیادہ اولوالعزم اور مشہور جیسا کہ وہ جنت میں سب کے پیغمبر تھے۔‘‘ (رگ وید: ۱۔۱۸۔۱۹)
(۴) ’’وہ تمام علوم کا منبع احمد عظیم ترین شخصیت ہے۔ روشن سورج کی طرح اندھیروں کو دور بھگانے والا ہے۔ اس سراج منیر کو جان کر ہی موت کو جیتا جا سکتا ہے، نجات کا اور کوئی راستہ نہیں۔‘‘ (یجر وید: ۳۱۔۸)
(۵) ’’احمد نے سب سے پہلی قربانی دی اور سورج جیسا ہوگیا۔‘‘ (رگ وید: ۸۔۴، ۹۔۱۰)
(واضح رہے کہ قرآن کریم میں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سراجاً منیرا یعنی چمکتا سورج کہا گیا ہے۔)
ان حوالہ جات میں ’’محمد‘‘ ترجمہ ہے لفظ ’’نراشنس‘‘ کا، جس کا سنسکر میں مطلب ’’انتہائی قابلِ تعریف شخصیت‘‘ ہے۔ اور ’’احمد‘‘ سنسکرت میں ’’احمدت‘‘ لکھا جاتا تھا جس میں ’’ت‘‘ اضافی لگتا ہے۔
اس کے علاوہ رگ وید ۱۔۱۶۳۔۱ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’سمدرا دوت عربن‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ سنسکرت کی ڈکشنری کے مطابق ’’س‘‘ کا مطلب ’’ساتھ‘‘، ’’مدرا‘‘ کے معنی ’’مہر‘‘، اور ’’عربن‘‘ کے معنی ’’عرب‘‘ کے ہیں (ن اضافی آواز ہے)۔ پورا مطلب ’’مہر کے ساتھ عرب والا‘‘ بنتا ہے جو محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ویدوں میں موجود غالباً سب سے اہم پیش گوئی اتھرو وید میں موجود ہے۔ ترجمہ کے مطابق:
’’لوگو! سنو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جائے گا۔ اس مہابر کو ہم ساٹھ ہزار نوے (۶۰۰۹۰) دشمنوں سے پناہ میں لیں گے۔ اس کی سواری اونٹ ہو گی جس کے ساتھ بیس مادہ اونٹنیاں ہوں گی۔ جس کی عظمت آسمانوں کو بھی جھکا دے گی۔ اس عظیم رشی (بزرگ) کو ۱۰۰ دینار، ۱۰ مالائیں، ۳۰۰ گھوڑے اور ۱۰۰۰۰ گائیں دی گئی ہیں۔‘‘ (اتھرو وید: ۲۰۔۱۲۷، ۱، ۲، ۳)
ان منتروں کے ترجمے کی بابت پنڈت وید پرکاش اپادھیائے، جو اسلام پر عربی زبان سیکھ کر تحقیق کر چکے ہیں، اپنی کتاب ’’نراشنس‘‘ اور ’’انتم رشی‘‘ میں کئی ابواب کی سیر حاصل بحث کے بعد ثابت کرتے ہیں کہ ۱۰۰ دینار سے مراد اصحابِ صفہ، ۱۰ مالاؤں سے مراد عشرہ مبشرہ، ۳۳۰ گھوڑے غزوہ بدر کے مجاہدین، اور ۱۰۰۰۰ گائیوں سے مراد فتح مکہ کا لشکر ہے۔ راقم کے خیال کے مطابق ۶۰۰۹۰ دشمن غالباً آغازِ اسلام میں مشرکین کی تعداد ظاہر کرتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)۔
قصہ مختصر کہ چاروں ویدوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکتیس (۳۱) مرتبہ ’’نراشنس‘‘ کے نام سے مذکور ہے اور بیان کردہ خصوصیات سوائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر کلّی یا جزوی پوری نہیں اترتیں۔
یہ تو تھا ویدوں کا حوالہ جنہیں ہندومت ’’سیدھا خدا سے اترا‘‘ مانتا ہے اور جس میں تحریف ممکن نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ویدوں کی تفسیروں میں بھی مذکور ہے جو ’’انسانی کلام‘‘ ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اسی دوران محمد نامی مقدس ملیچھ (غیر آریہ) وہاں آئیں گے، اپنے ماننے والوں کے ساتھ ۔۔۔ راجا بھوج انہیں کہے گا، اے ریگستان کے باشندے، شیطان کو شکست دینے والے، معجزوں کے مالک ۔۔۔ تمہیں نمسکار ہے۔ مجھے پناہ میں آیا ہوا غلام سمجھو ۔۔۔ پتھر کی مورتی کی بابت محمد کہیں گے کہ یہ تو میرا جھوٹا کھا سکتی ہے اور ایسا ہی ایک معجزہ دکھا دیں گے۔ راجا بھوج بہت متعجب ہو گا اور ملیچھ دھرم میں اس کا اعتقاد ہو جائے گا۔‘‘ (بھوشیہ پران: ۳۔۳، ۵۔۱۶)
اصل سنسکرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ لفظ ’’محامد‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ قدیم سنسکرت میں ملیچھ غیر آریہ نسل کے لیے استعمال ہوتا تھا نہ کہ ناپاکی کے لیے، جیسا کہ اب رواج پا چکا ہے۔ انہی اشلوکوں سے تھوڑا آگے کہا گیا ہے کہ
’’رات میں خدا کا قاصد آ کر راجا بھوج کو بتائے گا کہ ختنہ کروانے والا، چوٹی نہ رکھنے والا، داڑھی رکھنے والا اور پاک جانوروں کو غذا بنانے والا ہی خدا کا مقرب بندہ ہے۔‘‘
قارئین کرام! اگر اتنے واضح اشارات کے باوجود ہندو اپنے اصل پیشوا کو نہیں پہچان پائے تو محض اس لیے کہ ہزاروں سالوں سے ہندومت کے اجارہ داروں نے عوام کے لیے سنسکرت سیکھنے کی ممانعت کر رکھی تھی، اور سوائے برہمن کے کوئی اور ہندو ان کتب کو ہاتھ لگانا تو درکنار سن بھی نہیں سکتا تھا۔ اب بھارت میں سنسکرت کو عام کیا جا رہا ہے تو یہ حیرت انگیز معلومات بھی عام ہو رہی ہیں۔ نئی بھارتی نسل اب ’’پنڈت‘‘ کے ’فتنوں‘‘ سے خوفزدہ نہیں ہے اور یہ زبان سیکھ رہی ہے۔ جبھی بعض ہندو طبقات نے اب ان قطعات کو چھپانا شروع کر دیا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
بلکہ آریہ سماج نامی فرقہ تو سرے سے ہی ان کا انکاری ہو گیا ہے۔ گیتا پریس گورکھپور، جو مذہبی کتب کا سب سے بڑا پریس ہے، اب بھوشیہ پران کو پران ہی نہیں مانتا۔ لیکن سناتن دھرمی فرقہ جو کہ بھاری اکثریت میں ہے ان میں سے کچھ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ ’’سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے‘‘ کے مصداق وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے آشنا ہو جائے گی۔
٭٭٭