[]
ترواننتا پورم : نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کالی کٹ کے ایک پروفیسر کو پولیس نے ایک پوسٹ کے سلسلہ میں گرفتار کرلیا ہے جس میں ناتھورام گوڈسے کی ستائش کی گئی تھی۔
گاندھی جی کی برسی کے موقع پر پروفیسر ڈاکٹر اے شائجا نے فیس بک پر پوسٹ کیاتھا۔”ہندوستان کو بچانے کے لیے گوڈسے پر فخر ہے“۔
وہ ایک ایڈوکیٹ کے فیس بک پوسٹ پر تبصرہ کررہی تھی جس نے لکھا تھا ”ہندو مہاسبھا کارکن ناتھو رام گوڈسے‘ بھارت میں کئی لوگوں کا ہیرو“ بعدازاں شائجا نے اپنا تبصرہ حذف کردیا تھا لیکن اس کے اسکرین شاٹس بڑے پیمانہ پر گشت کرائے گئے تھے۔
سی پی آئی ایم یوتھ ونگ ڈی وائی ایف نے مطالبہ کیا کہ شائجا کو عہدہ سے ہٹادیا جائے کیونکہ انہوں نے سماج میں گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ ایم کے راگھون نے جو کوہی کوڈ (کالی کٹ) کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ایکس پر پوسٹ کیا کہ مجھے ایک ایسے فرد کی جانب سے جو این آئی ٹی میں ایک ذمہ دارانہ عہدہ پر فائز ہے‘ گاندھی جی کے خلاف نامناسب تبصرے اور گوڈسے کی تعریف سن کر شرمندگی ہوئی ہے۔
یہ ادارہ میرے حلقہ میں ہے۔ متعلقہ حکام کو مناسب اور بے مثال کارروائی کرنی چاہئے۔ رکن پارلیمنٹ نے این آئی ٹی۔ کالی کٹ کے ڈائرکٹر کو اپنے ایک مکتوب میں کہا کہ ایسے بیانات نہ صرف ادارے کی تعلیمی دیانتداری کی خراب عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان اقدار کی اہمیت کو بھی گھٹاتے ہیں جنہیں برقرار رکھنے کے لیے ہم جدوجہد کرتے ہیں۔
اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہمارا تعلیمی ماحول شمولیاتی‘ قابل احترام اور کسی بھی قسم کی عدم رواداری یا نفرت انگیز تقریر سے پاک رہے۔ اسی دوران کوہی کوڈ سٹی لمٹ کے تحت کنا منگلم پولیس نے شائجا کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153 کے تحت ایک کیس درج کرلیا۔
پروفیسر کے خلاف دیگر 3 تنظیموں نے بھی شکایت درج کرائی تھی۔ پروفیسر شائجا سے ربط پیدا کرنے پر انہوں نے کہا’میرا تبصرہ گاندھی جی کے قتل کی ستائش کے لیے نہیں تھا۔میں کبھی ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی۔
میں نے گوڈسے کی کتاب ”میں نے گاندھی کو کیوں مارا“ پڑھی تھی۔ گوڈسے بھی ایک مجاہد آزادی تھا اس نے اپنی کتاب میں کافی معلومات فراہم کی ہیں اور انکشافات کئے ہیں جو عام آدمی نہیں جانتا۔ اسی پس منظر میں میں نے ایڈوکیٹ کے فیس بک پوسٹ پر یہ تبصرہ کیاتھا۔‘