[]
حیدرآباد: ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی (ٹمریز) میں ایک بڑا بھونچال آنے والا ہے اور ایک بڑا اسکینڈل بے نقاب ہوسکتا ہے۔
اس ادارہ کے قیام کے ساتھ ہی مقرر کردہ سکریٹری بی ایس شفیع اللہ کا نئی حکومت نے حال ہی میں تبادلہ کردیا جو اس عہدہ پر تقریباً 8 برس تک فائز رہے تھے اور اب اس ادارہ میں دوسری پوزیشن رکھنے والے محمد عبداللطیف عطیر نے 15 دنوں کی طویل رخصت پر چلے گئے ہیں
جب کہ ان کی معاون سعدیہ علاء الدین نے اپنی ملازمت سے ہی استعفیٰ دے دیا ہے جس کے بعد ادارہ میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ ادارہ میں جاری بدعنوانیوں اور تغلب کا اسکینڈل بہت جلد بے نقاب ہوجائے گا چونکہ انہیں یہ امید ہے کہ نئی سکریٹری محترمہ عائشہ مسرت خانم ادارہ میں جاری بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں پر ایک خفیہ رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی‘
جس کو بنیاد بنا کر ریونت ریڈی حکومت‘ ادارہ میں بدعنوانیوں کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم جاری کردے گی۔بتایا جاتا ہے کہ ادارہ میں کم از کم 280 کر وڑ روپے کا تغلب ہوا ہے اور اس میں ادارہ کے کئی اہم عہدیدار‘ سیاسی و سماجی قائدین بھی ملوث رہے ہیں۔
ادارہ میں بدعنوانیوں‘ تغلب اور اخلاقی بگاڑ کے تعلق سے ایک عرصہ دراز سے شکایات کی جارہی تھیں مگر ایک مخصوص لابی نے ان شکایات کو اس وقت کے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ تک پہنچنے ہی نہیں دیا اور چیف منسٹر کے سامنے ہمیشہ ان اداروں کو اقلیتوں کے لئے کئے گئے سب سے بڑے کارنامے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا تھا۔
یاد رہے کہ ضلع نظام آباد میں سال گزشتہ اس وقت کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو ان ہی کی پارٹی کے ایک قائد نے ٹمریز میں جاری بے قاعدگیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تو چندر شیکھر راؤ نے بڑی حیرت کا مظاہرہ کیا تھا
اور اپنی پارٹی کے قائد سے پوچھا تھا کہ کیا واقعی ٹمریز میں بدعنوانیاں ہورہی ہیں جس پر اس قائدنے ان سے کہا تھا کہ اگر انہیں موقع فراہم کیا گیا تو وہ شواہد بھی پیش کرسکتے ہیں۔ اس ادارہ کے قیام سے ہی ایک مخصوص گروپ کے تسلط اور بھارت راشٹرا سمیتی حکومت کے ایک اہم وزیر کے عزیز و اقارب کی جانب سے اونچے داموں پر اشیاء کی سربراہی کے خلاف اٹھائی جانے والی آوازوں کو ان سنی کیا جاتا رہا تھا۔
یہی نہیں بلکہ جزوقتی عملہ کے آوٹ سورسنگ ایجنسی کے ذریعہ تقررات میں بھی بڑے پیمانہ پر بے قاعدگیاں کی گئی ہیں۔ یہ بھی الزامات عائد کئے گئے تھے کہ ادارہ کے کرتا دھرتا ہی اپنے عزیز واقارب کی اوٹ سورس ایجنسی قائم کرتے ہوئے عارضی ملازمت کی فراہمی پر بھی رشوت وصول کی۔ علاوہ ازیں اقامتی اسکولس کیلئے درکار اشیاء بھی مخصوص افراد‘ بے نامی کمپنیوں اور تجارتی اداروں سے اونچے داموں پر خریدی گئیں اور عمارات کے کرایہ میں بھی مالکان عمارات سے رشوتیں وصول کی گئیں۔