[]
ترجمہ: تنویر آفاقی
اسراء و معراج نبی 621ء / 10 ہجری
قدس کو 621ء میں زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہوا۔ یہیں سے آپؐ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے۔
فلسطین پر اسلامی فتح
خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے 633ء میں شام کو فتح کرنے کے لیے متعدد فوجیں حضرت عمرو بن العاص، حضرت یزید بن ابی سفیان، حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کی قیادت میں روانہ کیں۔ چناں چہ حضرت یزید بن ابی سفیان نے 634ء میں روم کو بحر مردار کے جنوب میں واقع وادی عربہ میں شکست سے دوچار کیا اور غزہ تک ان کا تعاقب کیا۔
اجنادین
634ء میں حضرت عمرو بن العاص نے معرکۂ اجنادین میں رومیوں پر بھاری فتوحات حاصل کرکے، فجل، بیسان، لد اور یافا کے علاقوں کو فتح کر لیا۔ پھر جب رومی شہنشاہ ہرقل کے بھائی تھیوڈوروس نے رومی لشکر کی کمان سنبھالی تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے کمانڈر خالد بن ولیدؓ کو عراق سے فلسطین کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
یرموک
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہوا تو ان کے بعد امور خلافت کا بار حضرت عمر بن خطابؓ کے کندھوں پر آگیا۔ انھوں نے فلسطین میں موجود اسلامی افواج کو حکم دیا کہ مکمل فتح حاصل کرنے کے لیے جنگ جاری رکھیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ تمام اسلامی افواج کو ایک لشکر کی شکل میں متحد کر دیں۔ اس کے بعد حضرت خالدؓ نے جنگ یرموک میں رومیوں سے ٹکر لی جس میں مسلمانوں کی فتح و نصرت نے فلسطین کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن لمحے کو وجود بخشا۔یہ فیصلہ کن لمحہ وہ تھا جس میں فلسطین کی سرزمین سے رومیوں کو نکال باہر کیا گیا۔
زیارت عمر فاروقؓ
عیسائی پادری صفرونیوس نے یہ شرط رکھی کہ حضرت عمر بن خطابؓ بنفس نفیس شہر قدس، جو اس وقت ’ایلیاء‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیں۔حضرت عمرؓ فلسطین تشریف لائے اور مسیحیوں کے لیے ایک معاہدے پر دستحظ کیے جس میں ان کے چرچوں اور صلیبوں کو امن کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ہی شام وحجاز، نجد اور یمن کے عرب قبائل جوق در جوق فلسطین کی طرف آنے لگے اور فلسطین کے علاقوں میں آباد ہونے لگے جس کے باشندوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ فلسطین کی غالب زبان بھی عربی زبان قرار پائی۔انھوں نے دوبارہ اس کا نام ایلیاء سے تبدیل کرکے واپس ’قدس‘ رکھ دیا۔
عہد امیہ 661۔750ء
عہد اموی میں فلسطین دمشق کے تابع تھا، اس دور کے عظیم ترین آثار میں سے ایک قبة الصخرہ ہے جسے عبدالملک بن مروان نے عین اس جگہ پر تعمیرا کروایا تھا جہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔دوسرا مسجد اقصی ہے جسے ولید بن عبدالمک نے تعمیر کرایا تھا اور جو آج تک اسی ڈھانچے پر قائم ہے۔ اس کے علاوہ شہر ’رملہ‘ ہے جس کے اندر سلیمان بن عبدالملک نے اپنا مشہور قلعہ اور مسجد ابیض تعمیر کرائی تھی۔
عہد عباسی 750۔ 1258ء
اموی خلافت کے خاتمے کے بعد فلسطین خلافت عباسیہ کے ماتحت آ گیا۔ خلیفہ مامون اور اس کے بیٹے مہدی نے اس شہر کی زیارت بھی کی تھی۔ خلافت عباسیہ کے دور میں فلسطین کو عرب تہذیب و ثقافت کے رنگ میں لانے کا عمل مزید تیز ہوا اور اہل فلسطین نیز عرب فاتحین کے درمیان ازدواجی رشتے قائم ہونے کےنتیجے میں نئی نسلوں نے جنم لیا۔
طولون
تیسری صدی ہجری میں فلسطین کے بیشتر اجزا پر خلافت عباسیہ کی پکڑ کم زور ہوتی چلی گئی، جس کے نتیجے میں طولونیوں کے لیے لبنان، شام، مصر اور فلسطین کو اپنے کنٹرول میں لینا ممکن ہو گیا۔ اس حکومت کی مشہور باقیات و آثار میں سے ایک عکّا کے بندرگاہ کی قلعہ بندی تھی۔
(طولونی سلطنت یا حکومتِ بنی طولون مصر کی ایک اسلامی سلطنت تھی، جس کی بنیاد احمد بن طولون تغزغزی ترکی نے رکھی تھی۔ یہ گویا خلافت عباسیہ کے متوازی ایک سلطنت تھی جس کا دائرہ شام تک وسیع تھا۔)
قرامطہ
مورخین چوتھی صدی ہجری کو سیاسی اتھل پتھل کا زمانہ قرار دیتے ہیں۔ اس زمانے میں خلیج عرب سے آندھی کی طرح بڑھنے والے قرامطہ نے دیارِ شام پر چڑھائی کر دی تھی اور فلسطین کے اندر بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی مچا کر اس پر قابض ہو گئے تھے۔ اس کے بعد فلسطین پر پے در پے مختلف حکومتوں، مثلاً اخشیدیوں، سلجوقیوں اور فاطمیوں نے حکم رانی کی۔ اس اعتبار سے یہ صدی واقعی افراتفری کی صدی تھی۔
صلیبیوں کا قبضہ 1095۔1291ء
گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ایک بار پھر فلسطین غیر ملکیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس صدی کے دوران یوروپ کو بہت سے سیاسی، سماجی و اقتصادی مسائل کاسامنا تھا۔ پوپ اُربن دوم کے ایک خطبے کے نتیجے میں 1095ء میں جنگی بیڑوں کو تیار کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اس خطبے میں اس نے عوام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ مسیح علیہ السلام کی مقدس قبر کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے اور شہر قدس کو ان سے پاک کیا جائے۔انھوں نے مسلمانوں کے مقدس مقامات کو بھی نقصان پہنچایا۔حاکم کیتھولک عیسائی تھا، جس نے آرتھوڈوکس عیسائیوں کو بھی کیتھولک رسومات کا پابند بنانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں ان کے اندر غصے کا ماحول پیدا ہو گیا۔
اس مطالبے کے بعد پیٹر دی ہرمٹ (Peter the Hermit) کی قیادت میں فوجی مہمات انجام دی گئیں جن کا سلسلہ دو صدیوں تک جاری رہا۔ انھیں فوجی مہموں کو صلیبی جنگیں یا صلیبی مہم کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان فوجی مہمات کاعلامتی نشان صلیب کو بنایا گیا تھا۔ پیٹر نے رملہ پر قبضہ کر لیا، یافا شہر کو تباہ وبرباد کر دیا اور تقریباً چالیس ہزار فوجیوں کی مدد سے قدس کا محاصرہ کر لیا۔ ایک ماہ کے حصار کے بعد مصری محافظ فوج نے، جو کہ اس وقت وہاں موجود تھی، ہتھیار ڈال دیے۔ انجام کار صلیبی 1099ء میں قدس کے اندر داخل ہو گئے۔ شہر کے اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے عرب آبادی کی بڑی تعداد کو قتل کر ڈالا، یہ تعداد تاریخی حوالوں میں اندازاً ستّر ہزار بتائی جاتی ہے۔
لیبیوں نے قدس میں لاتینی سلطنت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا دائرہ نفوذ بڑھا کر عسقلان، بیسان، نابلس اور عکا تک دراز کر لیا اور اپنے لیے طبریا کو جائے قرار بنا لیا۔
معرکۂ حطین
صلیبی محافظ طاقتوں کے ساتھ شدید اور سخت معرکہ آرائی کے بعد نور الدین زنگی بعض شہروں اور جاگیروں کو واپس لینے میں کام یاب ہو گیا۔ بعد میں صلاح الدین ابوبی نے فتوحات کے اس سلسلے کی تکمیل کی۔ 1178ء میں پیش آنے والا یہ معرکۂ حطین وہ معروف جنگ تھی جس میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے چنگل سےواپس لے لیا۔
صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد صقلیہ کے عیسائی حاکم فریڈرک کے عہد میں صلیبی ایک بار پھر قدس پر قابض ہو گئے۔ اس بار 11 برس کے عرصے تک یہ شہر ان کے کنٹرول میں رہا۔ 1244ء میں ملک صالح نجم الدین ایوب نے صلیبیوں سے آزاد کرایا۔
معرکۂ عین جالوت
مملوکی عہد خلافت میں سیف الدین قطز اور ظاہر بیبرس کو 1289ء میں شہر ’الناصرہ‘ کے قریب پیش آنے والے معرکۂ عین جالوت میں منگولی حملوں کو روکنے میں کام یابی حاصل ہوئی۔ منگول وہ لوگ تھے، جنھوں نے عالم اسلام کے ایک بڑے حصہ کا صفایا کر دیا تھا۔ یہ جنگ اسلامی جنگوں کی مشہور ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔
مکمل صفایا
خلیل بن قلاوون نے فلسطین کے ان شہروں کو بھی آزادی دلانے کا سلسلہ جاری رکھا جو صلیبیوں کے قبضے میں رہ گئے تھے۔ اور آخر کار 1291ء میں یہ ملک مکمل طور پر صلیبیوں سے پاک ہو گیا۔ ممالیک کے آثار و بقایاجات، جو آج بھی فلسطین کے اندر موجود ہیں، ان میں بعض عمارتیں، مدارس اور شہر ’لد‘ کے قریب تعمیر شدہ پُل ہے۔ ممالیک کے کھاتے میں قبة الصخرہ اور حرم ابراہیمی کی اصلاح ومرمت بھی آتی ہے۔
(خلیل بن قلاوون (1267۔ 1293ء) بحری مملوکی سلطنت کا آٹھواں سلطان تھا۔ اس کے عظیم کارناموں میں شہر عکا کی فتح اور صلیبیوں سے وہ آخری معرکہ ہے جس میں 196 سال بعد فلسطین کو صلیبیوں سے پاک کر دیا گیا۔)
عہد عثمانی
عثمانیوں نے جنگ مرج دابق میں، جو کہ حلب کے قریب 1516ء میں واقع ہوئی تھی، مملوکیوں پر فتح حاصل کر لی اور فلسطین میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد تقریباً چار صدیوں تک فلسطین عثمانیوں کے ماتحت ہی رہا۔
نپولین کا حملہ 1799ء
فرانس نے نیپولین کی قیادت میں مصر پر قابض ہوجانے کے بعد فلسطین پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی، لیکن یہ حملہ عکّا پہنچنے کے بعد شکست سے دوچار ہوا، کیوں کہ فلسطین کی قلعہ بندی اور اس کے کمان دار احمد پاشا کی شجاعت و بہادری کے سبب فرانس اپنے حملے میں ناکام رہا۔
محمد علی
والی مصر محمد علی نے 1838ء میں شام کو اپنی ریاست میں شامل کرکے مملکت میں توسیع کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت اس کا بیٹا ابراہیم پاشا ’العریش‘، غزہ، یافا، اور اس کے بعد نابلس اور قدس کو فتح کرنے میں کام یاب ہو گیا۔ بعد میں نابلس اور الخلیل میں ابراہیم پاشا کے ظالمانہ رویے اور کمر توڑ ٹیکس عائد کے خلاف بطور احتجاج عوامی بغاوت شروع ہو گئی۔ اس طرح شام کے اندر محمد علی کی حکومت دس سال سے زیادہ نہیں رہ سکی اور واپس عثمانیوں کے پاس آگئی۔
برطانوی قبضہ 1917ء
پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے خلاف جنرل ایلین بی کی قیادت میں برطانوی افواج کی فتح کے بعد 1917 ء سے لے کر
948 تک فلسطین برطانوی انتداب کے ماتحت رہا۔
تقسیم فلسطین
برطانیہ نے ایک شاہی کمیشن کو فلسطین بھیجا اور اسے یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ فلسطین کے اندر بے چینی اور اضطراب کے اصل و بنیادی اسباب کا پتہ لگائے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انتداب کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ عرب انقلاب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فلسطینی اپنے وطن کی آزادی چاہتے ہیں اور یہودیوں کی قومی ریاست کو مسترد کرتے ہیں۔
کمیشن نے یہ تجویز دی کہ تقسیم کی بنیاد پر فلسطین سے انتداب کو ختم کر دیا جائے اور عراق و شام کی طرز پر یہاں کے نظام کو نظام معاہدات (ٹریٹی سسٹم) سے بدل دیا جائے۔اس کے علاوہ یہاں دو ریاستیں قائم کر دی جائیں، ایک عرب ریاست ہو۔ اس ریاست میں اردن کے مشرقی حصے کو اس عرب فلسطینی ریاست سے ملا دیا جائے جس کا تعین کمیشن نے کیا ہے۔ دوسری یہودی ریاست ہو اور یہ ریاست فلسطین کے اس حصہ میں ہو جس کے سلسلے میں کمیشن کی رائے تھی کہ وہ یہود کےلیے خاص ہو۔ اور یہ سب اس شرط پر ہو کہ دونوں علاقے یہ پختہ ضمانت دیں کہ دونوں ریاستوں میں موجود اقلیتوں کی حفاظت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ بحری، بری اور فضائی افواج کی تشکیل اور بندرگاہوں، شاہراہوں، ریلوے لائن اور پیٹرول پائپ کی حفاظت کے سلسلے میں ان فوجی معاہدوں کی پابندی کرنی ہوگی۔
کمیشن نے ان دونوں ریاستوں کی حدود سے باہر ایک تیسرےعلاقے کی تجویز دی تھی جس میں شہر قدس اور بیت لحم شامل تھے۔ اس علاقے کے لیے قدس سے لے کر یافا تک اور شہر لد اور رملہ تک وسیع راستے سے گزر کر رابطہ ممکن ہو سکتا تھا۔ کمیشن نے یہ شرط بھی عائد کی کہ یہ تیسرا علاقہ انتداب کے ماتحت ہی رہے گا۔ اس پر بالفور اعلامیے(Balfour Declaration ) کا اطلاق نہیں ہوگا اور اس کی واحد سرکاری زبان انگریزی ہوگی۔
عربوں نے جن علاقوں کو گنوا دیا تھا، ان کے سلسلےمیں کمیشن نے یہ تجویز دی کہ تقسیم عمل آ جانے کے بعد اس نقصان کے عوض یہودی ریاست عرب ریاست کو مالی تعاون ادا کرے گی۔ لیکن عربوں نے کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ یہودیوں کو اگرچہ یہودی ریاست مل رہی تھی، تاہم انھوں نے بھی اس رپورٹ کو اس لیے مسترد کر دیا کیوں کہ اس سے بلفور اعلامیے کی مخالفت ہو رہی تھی، جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پورا کا پورا فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے گا۔
ستمبر 1937ء میں برطانوی وزیر خارجہ ’ایڈن‘ نے لیگ آف نیشنز کے سامنے تقسیم فلسطین کے تعلق سے برطانوی حکومت کی پالیسی پیش کی اور یہ تجویز رکھی کہ تقسیم کا مفصل نقشہ تیار کرنے کے لیے ایک ٹیکنیکل کمیشن کو بھیجا جائے۔ لیکن عربوں اور یہودیوں کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کر دیے جانے کی وجہ سے تقسیم کا منصوبہ موخر ہو گیا۔ 1944 ء میں انگلش۔ امریکی مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے توسط سے اور بالترتیب 1946 اور 1947 میں موریسن منصوبے اور پائیون منصوبے کے توسط سے دوبارہ عربوں کو اس تقسیم کے لیے آمادہ کرنے کےلیے برطانیہ اور امریکہ کی مساعی تیز ہو گئیں۔
گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں اس سلسلے کے واقعات لیگ آف نینشنز کے اسٹیج پر انجام دیے جا رہے تھے، لیکن چوتھے عشرے میں یہ واقعات اقوام متحدہ کی گلیاروں میں انجام پانے لگے۔ اپریل 1947ء کے آغاز میں برطانیہ نے انتداب سے علیحدگی کے اپنے تاریخی فیصلے کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ وہ ایک خصوصی سیشن میں قضیہ فلسطین کو پیش کرے۔ اقوام متحدہ نے تقسیم کا وہ غیر منصفانہ فیصلہ کیا جس کے بعد سے ظلم و بربریت اور کشت وخون کی داستانیں روز رقم ہوتی ہیں۔
(بشکریہ الجزیرہ)
٭٭٭