’’لیتھیم کا سعودی عرب‘‘ ، افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر، چین معاہدہ کے لئے کوشاں

[]

کابل: افغانستان جو انتہائی غربت کا شکار ہے اور اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، شاید ایک ٹریلین ڈالر مالیت کی معدنیات پر بیٹھا ہوا ہے۔

سال2021  میں امریکہ کے انخلاء کے بعد ملک کی حالت تباہ کن تھی۔ امریکہ نے دو دہوں تک وہاں قابض رہنے کے دوران سوائے کابل کے ملک کے دیگر حصوں کی ترقی اور لوگوں کی غربت دور کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔

جب 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو افغانستان کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔

اس دوران امریکی فوجی حکام اور ماہرین ارضیات نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر پر بیٹھا ہوا ہے جس میں دنیا کا سب سے بڑا لیتھیم کا ذخیرہ بھی شامل ہے۔ یہاں لیتھیم کے علاوہ ملک کے مختلف مقامات پر لوہا، تانبا اور سونا جیسی معدنیات بکھری ہوئی ہیں۔

افغان معیشت کے لیے لیتھیم کیوں اہم ہے؟

جب امریکہ نے دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل افغانستان پر حملہ کیا تو دنیا میں ٹیسلا، آئی فون یا مصنوعی ذہانت کا نام و نشان نہیں تھا۔ کوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی اور نہ ہی الیکٹرک وہیکلز  (ای وی) کا تصور تھا۔

تاہم دو دہائیوں کے بعد آج ای وی ایک مشہور لفظ ہے جس کی بیٹریوں کے لئے لیتھیم سب سے اہم عنصر ہے۔ لیتھیم کی مانگ آج عروج پر ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق 2040 میں لیتھیم کی طلب 2020 کے مقابلہ 40 گنا بڑھ سکتی ہے۔

افغانستان میں لیتھیم کا جو ذخیرہ ہے اسے آج تک نکالا نہیں گیا ہے۔ یو ایس جیولوجیکل سروے کے مطابق افغانستان کو مستقبل میں دنیا کا تسلیم شدہ لیتھیم کا بنیادی ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔

پینٹاگون کے اندرونی میمو میں کہا گیا ہے کہ افغانستان ’’لیتھیم کا سعودی عرب‘‘ بن سکتا ہے۔ مزید برآں، لوہے، تانبے، کوبالٹ اور سونے کے ذخائر اتنے بڑے ہیں کہ اس غریب ملک کو دنیا کے اہم کانکنی مرکز میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

افغانستان پر چین کی نظر

افغانستان میں موجود بڑی صلاحیت اور اچھوتی معدنیات کو دنیا نے نظر انداز نہیں کیا۔ تاہم یہاں اب امریکہ نہیں ہے کہ وہ ان ممکنہ ذخائر کو استعمال کرے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 کے آخر میں غیر ملکیوں کی دورہ افغانستان کی ایک نئی لہر شروع ہوئی۔

سال2021 سے 2022 تک لیتھیم کی قیمت آٹھ گنا بڑھنے کے بعد نئے غیر ملکی یعنی چینی، افغانستان کی طرف راغب ہوئے۔

اگرچہ طالبان کی حکومت، جسے ابھی تک بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو روکتی ہے، تاہم چین ان کے ساتھ کاروبار کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔

چینی، افغانستان میں ملازمتیں پیدا کرنے اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ لیتھیم کے ذخائر تک رسائی کے لئے طالبان حکومت کے ساتھ 10 بلین ڈالر کا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح چینی، افغان لیتھیم کے لئے سرفہرست دعویدار دکھائی دیتے ہیں جو بعد میں اس لیتھیم کو عالمی منڈی میں لے جائیں گے۔

دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ اس پیشکش کے باوجود چین کو لیتھیم کے ذخائر تک رسائی دینے کے لئے انہیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس سال جنوری میں طالبان حکام نے ایک چینی تاجر کو ایک ہزار ٹن خام لیتھیم کے ساتھ گرفتار کرلیا تھا جسے وہ براہ صوبہ کونار، پاکستان اور پھر چین اسمگل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

آگے بہت بڑے چیلنجز

افغان سرزمین پر افغان فوجی دستوں اور امریکی فوجیوں کے ساتھ کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد طالبان نے فتح تو حاصل کی مگر ملکی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ملک جنگ کے بعد کی بحالی کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔

افغانستان میں پہاڑی سڑکوں سے معدنیات کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے لئے صنعتی بنیاد اور بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔ ملک میں ہنرمند پالیسی سازوں کی بھی کمی ہے جیسا کہ ماضی میں طالبان نے نااہل لوگوں کو اہم خصوصی عہدوں پر تعینات کیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ معدنی ذخائر کی دریافت اور کانکنی سرگرمیوں کے آغاز کے درمیان 20 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ایک سب سے بڑا چیلنج سیاسی استحکام ہے کیونکہ کوئی بھی کمپنی اس وقت تک سرمایہ کاری کرنا نہیں چاہے گی جب تک وہاں مستحکم سیاسی اور قانونی نظام موجود نہ ہو۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *