[]
مہر نیوز خبررساں ایجنسی؛ میگزین ڈیسک _ زینب رجائی: جوانی کی ابتدا میں سفارت کار یا مولانا کا لباس پہن کر آئینے کے سامنے خود کو سنوارتا تھا، حاج حسن سامنے آکر کہتا تھا کہ اگر تمہارا ظاہر باطن سے زیادہ خراب ہے تو خدا کے دشمن ہو لیکن اگر تمہارا باطن ظاہر سے بہتر ہے تو خدا کے دوست ہو۔ مولانا کا لباس پہن کر خوش فہمی میں مت رہنا کہ یہ لباس پہن کر عاقبت بخیر ہوجاوگے بلکہ عاقبت بخیری کے لئے کچھ اور ضروری ہے۔
ہمیشہ اپنے والد کی یاد کرتے تھے جس نے حدیث سنا کر علی کے ضمیر کو جھنھوڑ دیا تھا۔ صبح سات بجے مجھے سکول لے جاتے تھے۔ دو منٹ کا راستہ تھا لیکن اسی میں بھی اہم باتیں کرتے تھے۔
ایک مرتبہ مجھے نصیحت کی کہ علی ہر کسی سے لقمہ مت کھانا۔ لقمہ آہستہ آہستہ انسان کے اندر اثر کرتا ہے اگر اپنے پیٹ کا مقابلہ کرسکو تو سمجھ لو ہر چیز کا مقابلہ کرسکتے ہو۔
حسن ایرلو علی کے بابا تھے۔ بچپن میں غربت کی سختیاں جھیلی تھیں۔ جوانی جب عروج پر تھی تو انقلاب اسلامی کا بھی آغاز ہوا اور گلی محلے کے نوجوانوں کے ساتھ انقلابی کاموں میں مصروف ہوتا تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد سپاہ پاسداران میں بھرتی ہوئے اور 2 ہزار سے زائد افراد کو فوجی ٹریننگ دی۔
دفاع مقدس کے دوران خرمشہر میں زخمی ہوئے اور ان کو علاج کے لئے لے جایا گیا۔ دفاع مقدس کے حالات اور واقعات بیان کرتے تھے کہ کس طرح سپاہ اسلامی بعثی فوج کا مقابلہ اور بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہوئے اپنی سرزمین کی حفاظت کی۔
دفاع مقدس کے دوران لگنے والی گولی کے اثرات آخری دم تک باقی تھے۔ گولی کا ایک ٹکڑا ان کے قلب میں پیوست تھا۔ کئی مرتبہ اصرار کے باوجود انہوں نے نکالنے نہیں دیا۔ کہتے تھے کہ یہ گولی مجھے قبر اور آخرت کے دن نجات دلائے گی۔
محاذ جنگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے لیکن جب امام خمینی کا پیغام ملا تو دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شام اور لبنان کی طرف عازم سفر ہوئے۔
اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ لبنان پر مسلط کردہ جنگ کے دوران دشمن کا بہادری سے مقابلہ کیا اور 63 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔
ان کے بیٹے اپنے باپ اور ماں کی شادی کے بارے میں سنے ہوئے واقعات بیان کرتے ہیں کہ عراق کے ساتھ جنگ کے دوران بھائی کی شہادت کی خبر سن کر ایران واپس آئے۔ گھر نے شادی کے لئے اصرار کیا۔ تین میں سے دو بھائیوں کی شہادت کے بعد گھر کا واحد سہارا تھا۔ شادی پر آمادہ نہیں تھے لہذا شرط رکھی کہ علی الصبح 6 بجے رشتہ لے کر جاوں گا۔ دادا اور دادی نے امی کے گھر والوں سے رابطہ کرکے ہماہنگی کرلی کیونکہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ یوں والدین کا رشتہ ہوجاتا ہے۔
شادی کے بعد بابا لبنان جاتے ہیں اور چند مہینوں کے بعد ایران رفت و آمد کرتے ہیں لیکن ان کی لبنان میں رہائش طویل ہوگئی تو ماں بھی لبنان چلی جاتی ہے۔ بابا لبنان میں تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ کئی مہینے تربیت کے بعد حزب اللہ کے 200 سے 300 جوان تیار ہوتے ہیں لیکن ایک حملے کے دوران ان میں 100 شہید ہوجاتے ہیں۔
علی کے بابا حسن ایرلو کی لبنان میں موجودگی کی وجہ سے مقاومتی جوانوں کے لئے بہت تسکین ہوتی تھی۔ عوام نے ان کو دل و جان سے قبول کرلیا تھا۔ شہید حسن ایرلو کے کردار سے لبنانی جوان بہت متاثر تھے۔ راتوں کو بیدار رہ کر عوام کی خدمت کرتے تھے۔
بعلبک میں عوام کے درمیان اس قدر محبوب اور مقبول تھے کہ مختار الضیعہ کا لقب دیا گیا تھا۔ لبنانی جوان ان کے ہر عمل کی پیروی کرتے تھے۔ آج بھی بعلبک میں لوگ ان کو یاد کرتے ہیں اور ہمارے خاندان کے ساتھ ان کے روابط ہیں۔