[]
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، علاقائی مسائل کے تجزیہ کار اور لبنان کے روزنامہ الاخبار کے ایڈیٹر ابراہیم امین نے اپنے آرٹیکل میں اس بات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب یمن کی تحریک انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے صہیونی دشمن کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو اس کے پیچھے نظریاتی محرکات کے ساتھ معروضی حقائق کے درست ادراک کا عنصر بھی تھا جو انہیں ناگزیر حالات میں جنگی اہداف کے حصول کے لئے اہم اقدامات اٹھانے پر ابھارتا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ یمنی مسلح افواج کی کارروائی حیران کن نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر اس جنگ کا حصہ بنی ہیں۔
یمن نے جنگی کارروائی غزہ کے مزاحمتی گروہوں کی مدد کے لیے ایک مزاحمتی رکن کی حیثیت سے خفیہ طور پر نہیں کی بلکہ یہ کاروائی لبنان اور فلسطین میں یمنی رہنماؤں اور محور مقاومت کے دیگر فریقوں کے درمیان مشاورت کے نتیجے میں کی گئی ہے۔
یمن کی طرف سے جب یہ فیصلہ کیا گیا تو اس ملک کی مسلح افواج نے مطلوبہ اہداف کا ایک مجموعہ ٹارگٹ کیا۔ وہی اہداف جو 2021 کی جنگ “شمشیر قدس” کے دوران فائنل کیے گئے تھے۔ لیکن اس وقت کی جنگی صورت حال نے یمن کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ البتہ اس وقت یمنی میزائلوں اور ڈرونز کی رینج بھی اس کارروائی کی راہ میں ایک اور اہم رکاوٹ تھی، تاہم جو کچھ بھی تھا، حالیہ جنگ میں مقبوضہ فلسطین کے جن اہداف کی نشاندہی کی گئی تھی ان میں سے کچھ فوجی علاقے اور حساس مقامات تھے جو نشانے پر رہے۔
مقبوضہ فلسطین پر یمن کے حملے کو روکنے کے لیے عرب (غدار) حکومتوں کی کوششیں۔
موجودہ دعوے کے برعکس یمنیوں نے سرکاری طور پر اور براہ راست ریاض حکام کو مقبوضہ فلسطین پر حملے سے آگاہ کیا، کیونکہ دونوں فریق یمن میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے، اس لئے یمنیوں نے سعودیوں کو مطلع کیا کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں میزائل حملے کریں گے اور اس کے میزائل اور ڈرون صرف سعودی فضا سے گزریں گے۔ صنعاء نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ یہ میزائل سعودی عرب کے کسی ہدف کو نشانہ نہیں بنائیں گے اور صنعاء کو امید ہے کہ ریاض ان میزائلوں کو فضا میں نہیں روکے گا۔
لیکن پہلے ہی دن جو ہوا وہ یہ تھا کہ سعودیوں نے تمام متعلقہ فریقوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا اور یمن کی طرف سے داغے گئے 9 کروز میزائلوں کو روکنے اور تباہ کرنے کے لیے اپنے فضائی دفاعی نظام کو فعال کیا۔ چنانچہ مصر کی جانب سے بھی یمنی میزائل گرائے گئے اور باقی میزائلوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری امریکی بحریہ نے قبول کی۔ لہذا اس دن انصار اللہ کاکوئی بھی میزائل یا ڈرون اپنے ہدف کو نشانہ نہیں بناسکا لیکن یمنی مسلح افواج نے سعودی اور مصری میزائل شکن نظام کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ تاہم اس دوران امریکی بحریہ اور صیہونی میزائل شکن نظام نے یمن کے بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کیا۔
ابراہیم امین مزید لکھتے ہیں کہ یمن کی عوامی حکومت کے میزائل حملے سعودی عرب اور مصر جیسی مغرب نواز حکومتوں کے تعاون اور امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم کی وجہ سے جزوی طور پر ناکام ہوئے لیکن ان میں سے کچھ میزائل اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
انصارا اللہ کا صہیونیت مخالف جنگ کا پلان بی
اس مرحلے پر یمنی اپنے آپریشن کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے اور بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت کے سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر براہ راست حملے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔ انہوں نے اپنی بحری افواج کو مسلح کیا اور ان بحری جہازوں کو روکا جو مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یمنیوں کا فیصلہ موئثر حد تک فیصلہ کن تھا اور غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کے بڑھتے ہوئے جرائم کے نتیجے میں انہوں نے مختلف سامان لے جانے والے کسی بھی جہاز کو مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔
لبنانی تجزیہ نگار مزید لکھتے ہیں: قدرتی طور پر، تمام بین الاقوامی قوتوں نے یمنیوں کو دھمکیاں دیں۔ امریکہ، یورپ اور صیہونی حکومت نے اس کارروائی پر ردعمل کی دھمکیاں دی تھیں، لیکن جب بھی یہ دھمکیاں دی گئیں یمنیوں نے اپنے حملوں کی شدت میں اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ اگر اس آپریشن کو نہ روکنے کی صورت میں امریکی وزیر جنگ کے علاقائی دورے میں یمن کے خلاف فوجی حملے کا خطرہ بھی اٹھایا گیا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی دھمکی یمن کے وقف کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
یمن کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی ناکام کوشش
ان دھمکیوں کے علاوہ امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے یمن میں خانہ جنگی کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ یمنی عوام عوامی تحریک انصار اللہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے (لیکن انہیں شکست ہوئی)۔
اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک اور آپشن یمن کے بنیادی ڈھانچے کی تنصیبات پر حملہ کرنا ہے جو کارآمد نہیں لگتا، کیونکہ یہ حملہ پورے خطے میں جنگ کی فضا کو بھڑکا سکتا ہے۔ یمنی میزائلوں کی صلاحیت ایسی ہے کہ یہ بحیرہ احمر کے ساحل سے دور علاقوں میں کسی بھی بحری ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یمن کے خلاف جنگی اتحاد کی ناکامی کے اسباب
لبنانی تجزیہ نگار اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں: مغرب والوں کے سامنے ایک مشکل سوال یہ ہے کہ اگر وہ یمن مخالف اتحاد بناتے ہیں تو کیا وہ بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب کو ان بارودی سرنگوں سے نہیں بھر دیں گے جو انہوں نے اپنی فوجی مشقوں میں دکھائی تھیں؟ یا اس علاقے میں شپنگ کی بندش کو کیسے روکا جائے؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر یہ جنگ شروع ہوتی ہے تو بحیرہ احمر کے مشرقی ساحل پر بالخصوص صومالیہ کے ساحل پر ان گروہوں کی پوزیشن کیا ہو گی جن کا یمن سے خصوصی تعلق ہے اور وہ خطے میں عرب بادشاہتوں کے دشمن ہیں؟
اس مضمون کے آخر میں روزنامہ الاخبار تاکید کرتا ہے: ہر ایک کو یمن کے بارے میں ان کے خیالات سے مختلف طریقے اپنانے چاہئیں یا اگر وہ غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنا نہیں چاہتے ہیں تو انہیں کسی نہ کسی طرح اس ملک کے حملوں کےبتسلسل کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یقیناً یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کو حل کرنے کے لیے کافی محنت اور وقت درکار ہے۔