[]
مہر خبررساں ایجنسی_انٹرنیشنل ڈیسک: مقبوضہ فلسطین بارے او آئی سی کے ہنگامی اجلاس سے متعلق خصوصی تجزیاتی رپورٹ۔
بیشترین مبصرین کا کہنا ہے کہ او آئی سی اجلاس کے بیانئے کے الفاظ غزہ کے لوگوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی شدت کے مقابلے میں مطلوبہ سطح پر نہیں تھے۔
مجموعی طور پر اجلاس کے بیانیہ الفاظ، تشریحات، تنقید و مذمت کے چونچلے قابض صیہونی رجیم کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار عملی اقدامات سے خالی تھے
لیکن اجلاس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، اور دیگر سیاست دانوں اور ماہرین کی تقاریر سب سے زیادہ سنجیدہ اور طاقتور تھیں اس لئے کہ انہوں نے قابض رجیم کے جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا تھا۔
مہر نیوز ایجنسی کے مطابق محترمہ وردہ سعد کی جانب سے کی گئی ایک وسیع رائے شماری کے دوران عرب سیاست دانوں اور صحافیوں کے ایک گروپ سروے کا نتیجہ درج ذیل تھا:
پروفیسر جہاد ایوب کا کہنا ہےکہ صدر رئیسی کا خطاب اس نعرے “لا شرقیہ و لاغربیہ الا الاسلامیہ” کے تجربے کی نمائندگی کرتا ہے۔
مذکورہ لبنانی نقاد، مصنف اور پروفیسر نے صدر رئیسی کی تقریر پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ 57 عرب اور اسلامی صدور میں ایرانی صدر کی تقریر واضح اور براہ راست، اور سب سے زیادہ شاندار تھی۔
وہ کہتے ہیں: صدر رئیسی مزاحمت اور فلسطین کی قدر جانتے ہیں اور وہ غزہ میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں وہ اعتماد کے ساتھ بات کرتے ہیں۔
دانشور حسن احمد حسن کہتے ہیں: صدر رئیسی کا خطاب ان تمام لوگوں کے لیے ایک پختہ پیغام ہے جو مسئلہ فلسطین کے حل کی تلاش میں ہیں۔
دریں اثنا، جیو پولیٹکس اور اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ماہر شامی محقق کی رائے یہ ہے کہ “جب عزت مآب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ریاض میں ہونے والی غیر معمولی عرب اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں فلسطینی شال کے ساتھ شرکت ایک اہم پیغام تھی کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف مزاحمت ہے۔
الھدی السوری نے کہا: بیان بازی کا عروج اس وقت تھا جب اس نے عارضی وجود کو وقت کا فرعون قرار دیا کہ کس طرح فلسطینیوں کے خون نے صیہونی تلوار پر فتح حاصل کی اور تمام مقبوضہ سرزمین پر فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کو بیان کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی صدر کے الفاظ، واضح، سخت، فیصلہ کن ہیں اور یہ مزاحمت کے قائدین پر منحصر ہے کہ وہ ہر لفظ پر غور کر کے عملی اقدام کریں ۔
ڈاکٹر نزیہ منصور: لبنان کے سابق رکن پارلیمنٹ “ڈاکٹر نزیہ منصور” صدر رئیسی کو او آئی سی اجلاس کا ستارہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر رئیسی فلسطینی شال گردن پر آویزاں کئے فلسطینی مجاہدین اور شہداء کی ارواح کو سلام پیش کرتے ہوئے معمول کے تکلفات کو ترک کے سیدھے مزاحمت پر پہنچ گئے اور صورت حال کی درست سمت متعین کی۔ وہ مزاحمت اور بائیکاٹ کے محور کی قیادت میں دفاع کی پہلی لائن آ کھڑے ہوئے۔
انہوں نے خطے میں امریکی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن پر اعتماد کرتے ہوئے اسلامی اتحاد پر زور دیا۔
یحییٰ حرب کہتے ہیں: صدر رئیسی کی تقریر اس قدر سنجیدہ اور واضح تھی کہ کسی قسم کے ابہام کا امکان نہیں تھا۔
انہوں نے صدر رئیسی کے فلسطین اور بالخصوص غزہ کے موجودہ تنازعے کے صحیح فریم ورک کے بارے میں موقف کو محور عزت اور محور شرارت کے درمیان تصادم سے تعبیر کیا ہے۔
لہٰذا، عربوں اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کا تعین کرتے ہوئے مجاہدین کی صف میں کھڑے ہوں۔ کیونکہ ایران امام خمینی کے زمانے سے اپنے مستحکم موقف کی بنیاد پر فلسطین اور اس کے مزاحمتی گروہوں کے ساتھ ہے۔
صدر رئیسی کا خطاب درج ذیل حقائق کی تصدیق کرتا ہے:
1- ایران فلسطینی عوام کے کاز میں پوری طرح شامل ہے اور ان کے حقوق اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔
2- یہ کہ ایران اسرائیلی جارحیت، غزہ کی تعمیر نو، اور ادویات، خوراک اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی ہنگامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فلسطینی عوام کو مسلح کرنے کے لیے کسی بھی اسلامی کوشش کی پہلی صف میں ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
3- اسلامی جمہوریہ فلسطین کے تنازعہ کو طاغوت کے مقابلے میں ملت اسلامیہ کی جنگ سمجھتا ہے اور اس کے مقدسات کو بحال کرنے کے حقوق کی حمایت کرتا ہے۔
4- مزاحمت کا محور فلسطینیوں کو مسلح کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جو قوم کا بازو ہیں اور اس کی پناہ گاہوں کی حفاظت کرتا ہے نہ کہ ان ثانوی اور فتنہ فسادات کا حصہ بنتا ہے جس کو امریکی صہیونی اتحاد خطے میں ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
عدنان عالم کا کہنا ہے: ایرانی صدر کی تقریر نے واضح اور جارحانہ انداز میں مسئلہ فلسطین اور غزہ کے عوام کے ظلم و ستم کو اس طرح جاندار انداز میں پیش کیا جیسے وہ ایران کا حصہ ہوں۔
لیلی عماشا کا کہنا ہے: ایرانی صدر کی تقریر کھوکھلے نعروں سے پاک اور مغرب کے تعریف اور خوشامد سے دور تھی۔
صحافی لیلیٰ عماشا کا کہنا تھا کہ او آئی سی اجلاس غزہ پر وحشیانہ حملے کے آغاز کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے اور شہداء کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کرنے کے بعد منعقد کیا گیا جو کہ افسوسناک ہے۔
سچ پوچھیں تو عرب رہنماؤں کے معاملات میں فلسطین کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ شرکاء شاعرانہ تقاریر کرتے ہیں وہ بھی مغرب کے مفادات کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر۔
البتہ اس اجلاس میں ایرانی صدر رئیسی کی تقریر اہم ترین تھی جس نے مسئلہ فلسطین کے لئے روڈمیپ فراہم کیا۔
جس میں غزہ سے محاصرہ ختم کرنے اور صہیونیوں کو نکال باہر کرنے کے علاوہ اسلامی ریاستوں اور غاصب رجیم کے درمیان تعاون کو ختم کرتے ہوئے اس ایک دہشت گرد رجیم ڈکلئیر کرکے سمندر سے دریا تک ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے واضح خطوط موجود تھے۔
ماہر نفسیات نسرین نجم کہتی ہیں: ایران کے صدر حق کی آواز تھے جس نے او آئی سی اجلاس کے تن مردہ میں جان ڈال دی اور اس ایوان کے وقار کو بلند کیا۔
سماجی نفسیات کی ماہر محترمہ نسرین نجم نے کہا: صدر رئیسی کا خطاب اسلامی انقلاب کی روح اور منطق و سچائی کی طاقت پر مبنی ایک مفصل تاریخی خطاب اور شہداء کے خون، قربانیوں اور بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک بہترین اظہار تھا جنہوں نے لوگوں کو مزاحمت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صیہونی سرطانی جرثومے کو براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے اسے کاٹ پھینکے کا نسخہ بتایا۔
صدر رئیسی کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل کرتے ہوئے اتحاد، مزاحمت اور ایمان سے ہم اس “امریکہ کے ناجائز بچے” کو شکست دے سکتے ہیں۔
پروفیسر نسرین نجم نے مزید کہا: فی الحال سید ابراہیم رئیسی تمام مظلوموں، مزاحمت کاروں، عزت داروں اور آزادی پدندوں کی آواز بن گئے ہیں اور ان کے خطاب نے او آئی سی اجلاس کو عزت و وقار بخشا ہے۔