آج سب کو یہ طے کرنا ہوگا کہ کس محاذ پر کھڑے ہیں، او آئی سی اجلاس سے ایرانی صدر کا خطاب+ مکمل متن

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے ریاض میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس میں اس کے انعقاد پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: آج ہم اس غیر معمولی اجلاس میں جمع ہوئے۔ آئیے اسلامی دنیا کے اہم مسئلے، مسئلہ فلسطین اور غزہ کے باشندوں کے خلاف تاریخ کے سب سے گھناؤنے جرائم میں سے ایک کے حوالے سے ایک تاریخی اور عبرتناک فیصلہ کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عالم اسلام کے مسائل کلمہ وحدت کی صورت میں حل ہوسکتے ہیں۔ عالم اسلام کی اقدار پر اعتماد ہی ملت اسلامیہ کو بچانے کا راستہ ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہمسائیگی اور اخوت کی پالیسی کو اپنا کر اسلامی ممالک کے لیے دوستی اور بھائی چارے کے دروازے کھول دیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے مظلوم مسلمانوں کی فریاد کا جواب دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔” آج رسول خدا فلسطین کے لیے ماتم اور غم منا رہے ہیں۔

صدر نے یہ سوال کرتے ہوئے کہا کہ آج پیغمبر اسلام اپنی امت سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ اور آج ملت اسلامیہ اپنے قائدین اور حکومتوں سے کیا چاہتی ہے؟ کہا: آج عمل کا دن ہے۔ آج مسجد اقصیٰ کے بہادری سے دفاع کا ایک تاریخی دن ہے۔ آج کا دن حق اور باطل کے درمیان جنگ کا دن ہے۔ آج اسرائیل کی جعلی حکومت وقت کی فرعونی رجیم ہے۔

ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ دنیا میں ہونے والے لاکھوں مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین کے دفاع کا مسئلہ آج اقوام عالم کے دلوں میں موجزن ہے۔ آج تلوار پر خون کی فتح کا دن ہے۔مہر نیوز کے مطابق غزہ کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کی تقریر کا مکمل متن درج ذیل ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی جمیع الأنبیاء و المرسلین سیّما أشرفهم و خاتمهم سیدنا و نبینا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین

اُذِنَ لِلَّذین یُقاتَلونَ بِأنَّهُم ظُلِموا و إنَّ اللهَ عَلی نَصرِهِم لَقَدیر۔

سلام ہو بیت المقدس پر
سلام ہو غزہ اور اس کے بہادر بچوں پر
درود ہو فلسطین اور اس کے ناحق بہائے جانے والے خون پر۔

فلسطین اور لبنان کی قابل فخر مزاحمت کو سلام

آج فلسطین اسلامی اور انسانی غیرت کا معیار ہے۔

جناب صدر؛

سب سے پہلے میں اسلامی تعاون تنظیم کے 14ویں سربراہ کی حیثیت سے سعودی عرب کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے علاقائی ترقی اور موجودہ سنگین حالات کے اس نازک موڑ پر اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے اس اہم اور مشترکہ اجلاس کی میزبانی کی۔

آج اس غیر معمولی اجلاس میں ہم عالم اسلام کے اہم مسئلے، مسئلہ فلسطین اور اس سرزمین اور غزہ میں ہونے والے تاریخ کے سب سے گھناؤنے جرائم میں سے ایک کے بارے میں ایک تاریخی اور عبرتناک فیصلہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

عالم اسلام کے تمام مسائل اتحاد و اتفاق کی روشنی میں حل ہو سکتے ہیں۔ خدا اور اس کی ابدی قدرت پر بھروسہ اور عالم اسلام پر بھروسہ امت اسلامیہ کو بچانے کا راستہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں پر بھروسہ نہیں۔ اور یہ تنظیم اپنے صحیح کردار کے ساتھ امت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کے مظہر میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے ہمسائیگی اور اخوت کی پالیسی کو اپناتے ہوئے اسلامی ممالک کے لیے دوستی اور بھائی چارے کے دروازے کھول دیے ہیں۔

آج ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے مظلوم مسلمانوں کی “یا للمسلمین” کی پکار کا جواب دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آج رسول خدا (ص) فلسطین کے لیے سوگوار اور غمگین ہییں۔
آج پیغمبر اسلام اپنی امت سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ آج ملت اسلامیہ اپنے قائدین اور حکومتوں سے کیا چاہتی ہے؟

یا اخوانی فی الدین

آج عمل کا دن ہے۔ آج مسجد اقصیٰ کے بہادری سے دفاع کا ایک تاریخی دن ہے۔

آج کا دن حق اور باطل کے درمیان جنگ کا دن ہے۔ آج اسرائیل کی جعلی حکومت وقت کی فرعونی رجیم اور روئے زمین پر فساد کی علامت اور بے گناہوں کا خون بہانے کا عامل ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے مظاہرے بتاتے ہیں کہ فلسطین کے دفاع کا مسئلہ آج اقوام عالم کے دلوں میں موجزن ہے۔ اس لیے آج کا دن تلوار پر خون کی فتح کا دن ہے۔

پچھلے 5 ہفتوں میں غزہ اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہوا وہ اخلاقیات، قانون اور انسانیت کے لیے تاریخی شرمناک ہے۔ غزہ مظلوم ہے لیکن مقتدر۔ خونین لیکن باعث افتخار و سربلند؛ غزہ پچھلی دو دہائیوں میں مکمل سمندری، زمینی اور فضائی ناکہ بندی کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل کے طور پر جانا جاتا ہے، اس نے فرعونوں کے قلعے کو تہس نہس کیا اور خالی ہاتھ میدان میں ایستادہ ہے ۔

لیکن قابض حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوری غزہ کی پٹی پر بھرپور حملے شروع کر دیے۔ نسل کشی کے مقصد سے فاسفورس بموں اور دیگر ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال سمیت اندھا دھند اور وسیع پیمانے پر بمباری نے آدھے غزہ کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے اور 11 ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا ہے جبکہ 3 ہزار سے زائد لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ 

 اسرائیل کے حملوں کا سب سے زیادہ نشانہ غزہ کی معصوم خواتین اور بچے ہیں۔ امدادی کارکنوں، طبی عملے، صحافیوں کا قتل اور ہسپتالوں پر بمباری اس بھیانک جرم کا ایک اور شرمناک حصہ ہے۔ زیادہ قابل رحم ان لوگوں کی تعداد ہے جو ادویات کی کمی اور صیہونی حکومت کے محاصرے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

پہلا اور فوری اقدام یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کا قتل عام بند کیا جائے اور عام شہریوں کے خلاف اندھا دھند حملے بند کیے جائیں، خاص طور پر اسپتالوں، اسکولوں، کیمپوں اور امدادی مراکز پر حملے۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامی “انسان دوست وقفہ جنگ” جیسے منحرف تصورات پیش کر کے محض عوامی رائے عامہ کے دباؤ سے بچنے کی کوشش کریں اور مزید جرائم کے ارتکاب کے لیے حکمت عملی تیار  کریں۔ 

امریکہ اور صہیونی دشمن کو انسانوں کے قتل عام کو فوری طور پر بند کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تمام ذرائع کو فعال کیا جائے۔ ہم اسلامی ممالک کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر صیہونیوں کی جارحیت اور توسیع پسندی کے خلاف غزہ اور مغربی کنارے کے عوام کی مزاحمت نہ ہوتی، اگر لبنان کی حکومت کی اس قابض اور جارح رجیم کے خلاف مزاحمت نہ ہوتی، تو آج کیا ہوتا۔ بہت سے عرب اور اسلامی ممالک صیہونیوں کے ساتھ ایسی جنگ میں مصروف ہوچکے ہوتے۔

دوسرا، غزہ کی انسانی ناکہ بندی کا مکمل خاتمہ اور رفح کراسنگ کو فوری اور غیر مشروط طور پر دوبارہ کھولنا مصری بھائیوں کے تعاون سے امداد کی ترسیل اور غزہ میں خوراک اور ادویات کی بہم رسانی۔ 
اس سربراہی اجلاس میں اسلامی ممالک کے معزز سربراہان کی طرف سے انسانی امداد بھیجنے پر اتفاق کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایک ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی جائے۔ امداد کی قلیل مقدار کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ غزہ کی طرف جانے والی کراسنگ کو کھولا جانا چاہیے۔ امریکی اور مغربی دباؤ پر سرحدیں بند کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

تیسرا، غزہ سے صیہونی حکومت کا فوری فوجی انخلاء۔ غزہ کی زمین فلسطینی عوام اور ان کی منتخب حکومت کی ہے، نہ ان گماشتوں کی  جو امریکہ اور صیہونیت کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ 
یہاں میں اسلامی ممالک سمیت تمام ممالک کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ مقبوضہ اور فلسطینی علاقوں میں سرحدی حفاظت فراہم کرنے میں حصہ لینے کی آڑ میں کسی بھی امریکی صہیونی منصوبے کا حصہ نہ بنیں جو مدد یا دفاع کے بہانے صیہونی قبضے کو جواز فراہم کرے۔

چوتھا؛ اسلامی ممالک کی طرف سے صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو منقطع کرنا۔ اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے خلاف تجارتی پابندیوں بالخصوص توانائی کے شعبے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ نیز اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ میں عوامی تحریکوں کا ساتھ دیا جائے۔

پانچویں، اسلامی حکومتوں کو جارح اور قابض حکومت کی فوج کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کرنا چاہیے۔

چھٹا، حالیہ جنگ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث صہیونی اور امریکی مجرم رہنماؤں اور حکام کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لیے بین الاقوامی عدالت کی تشکیل۔

ساتویں، اس سربراہی اجلاس میں اسلامی ممالک کی منظوری سے غزہ کی فوری تعمیر نو کے لیے خصوصی فنڈ کا قیام۔

آٹھویں، مختلف اسلامی ممالک سے فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد لے کر قافلے بھیجنا۔

نواں، صہیونی جرائم بالخصوص المعمدانی ہسپتال پر بمباری کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا دن قرار دینا۔

اور جہاں تک دسویں راہ حل کا تعلق ہے، اگر صیہونی حکومت کے جنگی جرائم جاری رہتے ہیں اور امریکی انتظامیہ اس غیر مساوی جنگ میں جاری رہتی ہے تو اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کو مسلح کریں اور غاصب رجیم کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں۔

یہ سب فوری اور قلیل مدتی حل ہیں۔ لیکن پائیدار حل جو کہ اسلامی انقلاب کے صاحب فراست رہبر امام خامنہ ای نے تجویز کیا تھا اور آج اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ ہو چکا ہے، وہ ہے سمندر سے دریا تک ایک واحد فلسطینی ریاست کا قیام جس کی بنیاد جمہوری اصول پر ہے کہ “ہر فلسطینی کا چاہے مسلمان، عیسائی یا یہودی ایک ووٹ ہے۔ اسلامی جمہوریہ اس راہ حل کی مضبوطی سے حمایت کرے گا۔

اسلامی ممالک کے سربراہان

پچھلے 70 سالوں میں مختلف بظاہر امن پسند ورژن پیش کیے گئے، جو دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ان چالوں کی آڑ میں صیہونی حکومت نے مسلسل مظلوم فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا اور ناجائز بستیاں تعمیر کرکے فلسطینیوں کے گھروں میں قابض فوجیوں کو آباد کیا ہے۔

اور زندہ درگور کردی گئی بچی سے سوال کیا جائے کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟

یہ سب ہمارے بچے اور خاندان ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔  ان تمام بچوں نے کونسا گناہ کیا تھا کہ وہ مارے گئے۔ آج غزہ کی جنگ ایک دوسرے کے خلاف دو محوروں کی جنگ ہے: عزت کے محور کی شر کے محور کے خلاف جنگ۔ آج ہر ایک کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کس صف میں ہیں: مجاہدین کی صف میں کہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوطی سے کھڑے ہیں یا پھر انسانیت کے بدترین دشمنوں کے ساتھ کہ جنہوں نے انسانی نسل اور کھیتی کو تباہ کردیا۔

اسلامی عرب ممالک کے معزز سربراہان، تنظیموں کے معزز معتمدین

بلاشبہ امریکی حکومت اس جرم کی اصل مرتکب اور شراکت دار ہے۔ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے ہزاروں مظلوم فلسطینی بچوں کی خوشگوار زندگیوں پر اپنی حمایت کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ نے مقبوضہ علاقوں میں فوری طور پر اپنی سکیورٹی کابینہ تشکیل دے کر صیہونی حکومت کو غزہ کے بے گھر لوگوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کی ترغیب دی اور اسے جائز دفاع قرار دیا۔
 قابض فوج کے جائز دفاع کا دعویٰ کہ جو فلسطینیوں پر مسلسل آگ برسا رہی ہے تاریخ کی ایک تلخ ستم ظریفی ہے اور بین الاقوامی معیارات اور قانونی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

اسی وقت امریکی جنگی جہاز کو خطے میں بھیجے گئے اور اس طرح امریکہ مؤثر طریقے سے اسرائیل کی جنگ میں کودا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے قرارداد کی منظوری سے روکنا جارحین کے لیے امریکہ کی ایک اور خدمت تھی، جس نے اپنے ہاتھوں کو صہیونی جنگی جرائم میں فلسطینیوں کے خون سے مزید رنگین کیا۔

امریکہ کا ایک اور اقدام صیہونی حکومت کو ہر قسم کے مہلک ہتھیاروں سے مسلح کرنا اور اس کی حمایت کرنا اور غاصب اسرائیل کے اسلحے کے ذخائر کو بھرنا، اس کے علاوہ اس حکومت کے فوجی بجٹ کو اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرنا ہے۔ صیہونی حکومت کی جنگی مشنری اور اس کا ایندھن دونوں امریکیوں کے دئے ہوئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہتھیاروں کی بھاری کھیپ بھیجی جارہی ہے اور صہیونی دشمن اب تک غزہ کے عوام پر ہیروشیما پر گرائے گئے  ایٹم بم کے سات برابر مہلک بارودی بم گرا چکا ہے۔ یہ ایک کھلی جنگی مشارکت شرکت ہے جس کی بین الاقوامی حکام کو  سختی سے پیروی کرنی چاہیے۔

سب سے زیادہ تباہ کن کردار امریکہ کا ہے۔ ساری تباہیاں امریکیوں کے سر پر ہے۔ افغانستان، عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک سمیت دنیا میں لاکھوں انسانوں کے قتل کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ امریکہ تمام بین الاقوامی تنظیموں کو خیرباد کہہ کر دنیا کو ٹھیکے دے کر اس جنگ کا آغاز کر رہا ہے۔

قابل احترام اسلامی حکومتیں

آج فتنہ وفساد اور انسانی حقوق وغیرہ کے نقاب الٹ چکے ہیں اور غاصب اسرائیل عالمی نفرت میں گھرا ہوا ہے اور ہر کوئی واضح طور پر دیکھ رہا ہے کہ عالم اسلام کے قلب میں اس سفاک رجیم کے قیام کا کوئی اور مقصد نہیں ہے سوائے خطے پر سامراجی مغربی ممالک کا تسلط اور سب سے بڑھ کر اسلام کو کمزور کرنے اور تباہ کرنے کے۔

لیکن کیا جائے اور راہ حل کیا ہے؟

اب جب کہ بین الاقوامی ادارے امریکہ کے زیر اثر خاموش اور غیر موئثر ہو چکے ہیں تو ہمیں میدان میں آنا چاہیے۔

اس جارحیت کے آغاز سے میں نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ ہنگامی اجلاس جلد از جلد منعقد ہونا چاہیے۔ کاش یہ اجلاس، جو اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کے فلسفے کو بھی تشکیل دیتا ہے ایک ماہ قبل منعقد ہوتا۔ اب جبکہ اس میں تاخیر ہوئی ہے، اس سے فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ کن اور فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ شروع سے ہی صیہونی حکومت کو غاصب، جعلی اور ناجائز سمجھتا آیا ہے۔ 75 سال کچھ بھی نہیں، اگر یہ قبضہ مزید جاری رہا تو صیہونی نسل پرست رجیم تب بھی غاصب اور جارح رہے گی۔ اس حملہ آور کو نکال باہر کیا جائے، سزا دی جائے اور فلسطینیوں کے نقصان معاوضہ لیا جائے۔ دوسری طرف صیہونی قبضے کے خلاف کھڑا ہونا ایک جائز دفاع اور مقدس عمل ہے۔ قابض سے نمٹنے کا بنیادی حل مزاحمت ہی ہے۔ صیہونی دشمن کے خلاف کئی دہائیوں کی پرجوش مزاحمت بالخصوص صیہونیوں کے وحشت ناک جرائم کے خلاف گزشتہ 35 دنوں کی مزاحمت ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ قابض رجیم کو پیچھے دھکیلنے کے لیے مزاحمت کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس لیے ہم حماس اور تمام بہادر مزاحمتی گروہوں کے
ہاتھ اور بازو چومتے ہیں جو عالم اسلام کا فخر ہیں اور ہم غزہ کے مزاحمتی عوام کے عزم کو سلام پیش کرتے ہیں۔

میں واضح طور پر اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینیوں کی مزاحمت کو آزادی کی تحریک سمجھتا ہے، غزہ کے باشندوں کی جبری نقل مکانی کو جارحیت کا تسلسل اور جنگی جرم سمجھتا ہے اور مسجد اقصیٰ اور مقدس مقامات کے تحفظ کو ضروری اور واجب سمجھتا ہے۔

جس بات پر ہم برسوں سے زور دے رہے ہیں وہ آج یورپی اور امریکی اقوام کی چیخ و پکار میں سنی جا سکتی ہے۔ یہاں، میں ان تمام اقوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے غزہ کے لوگوں کے لیے ہمدردی اور دفاع کا اظہار کیا۔ آج غزہ میں اسرائیل کے جرائم نے پوری دنیا کے لوگوں کو بیدار کر دیا ہے۔ اس پاکیزہ خون کی بیداری کی قیمت 14 ہزار انسانوں کی جانیں تھی۔ آج غزہ میں آگ اور ملبے کی آوازوں کے علاوہ دنیا کی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف مبذول کرائی جائے وہ ہے ایٹمی اسرائیل۔
 دنیا کی واحد نسل پرست حکومت جو کہ انسانوں کو انسان نما جانور کہتی ہے اور بچوں کے قتل کو بھی جائز سمجھتی ہے، ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار بنانے کے خفیہ منصوبوں کے باوجود کسی بین الاقوامی ادارے کی نگرانی میں نہیں ہے اور دنیا کی آنکھوں کے سامنے نہتے لوگوں پر وہ ایٹم بم سے حملہ کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ ممالک کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے کیا قیمت ادا کرنی چاہیے اور کون سی آفت آنی چاہیے۔

“اسلامی مزاحمت” جس نے آج فلسطین اور خطے کے دفاع میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، امت اسلامیہ کی بیداری اور صیہونی دشمن اور استکباری ریاستوں کی جارحیت اور تسلط کا مقابلہ کرنے کے ستر سال سے زیادہ کے تجربات کا نتیجہ ہے۔ 

پیارے بھائیو اور بہنو

مسلمان قومیں اسے اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتی ہیں کہ جب غزہ میں ان کے بھائیوں کا خون زمین پر بہہ رہا ہو تو حکومتیں معاشی فائدے کے لیے اسرائیل کی جنگی مشنری کو ایندھن فراہم کرتی ہیں۔

اب امت اسلامیہ کا خون جوش مار رہا ہے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج وہ ایک خدائی امتحان سے دوچار ہوئے ہیں اور اگر اسلامی ممالک کے سربراہان کا آج کا اجلاس فلسطینی عوام کو بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدام کرنے سے قاصر ہے تو اس سے اقوام عالم کی حکومتوں کے تئیں مایوسی اور ان کی بے صبری میں اضافہ ہوگا۔  اور وہ فلسطین کے دفاع میں اپنے طور پر کام شروع کر سکتے ہیں۔

اسلامی ریاستوں کے معزز سربراہان جناب صدر

مجھے چند سلام کے ساتھ اپنی تقریر کے خاتمے کی اجازت دیجئے:

غزہ کے مظلوم اور شہید بچوں کو سلام

سلام ان بچوں کو جو غزہ کے کھنڈرات کے پاس قرآن میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور قرآن کی آیات کی تلاوت کر رہے ہیں۔

سلام ہے ان بچوں کو جو ظلم کی وحشت سے کانپتے ہیں۔

غزہ کے میرے پیارے بچوں کو سلام۔

آپ کو سلام جنہوں نے آج دنیا کی مسلح افواج اور روئے زمین کے ذلیل ترین لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں مزاحمت کا مفہوم سمجھا دیا۔

سلام ہے آپ پر کہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں اور نازک جسموں سے غاصب صیہونیوں کی درندگی اور بربریت کی تصویر کشی کی۔

تمہارے خون آلود چہرے اور تمہارے بکھرے ہوئے جسم اور امریکی بموں کے ملبے تلے تمہاری بکھری ہوئی ہڈیاں چیخ رہی ہیں کہ ہم مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بلاشبہ مستقبل اسی مزاحمت کا ہے۔ اصل ہیرو آپ دلاوران مزاحمت ہی ہیں۔ ہم آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ فلسطین کی فتح یقینی ہے۔ وہ لوگ اسے بعید سمجھ رہے ہیں جب کہ ہم نزدیک دیکھ رہے ہیں۔

 قدس ہمارا ہے اور فتح ہماری۔

والسلام علیکم و رحمه الله و برکاتہ

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *