غزہ آتش و آہن کی موسلادھار بارش!

[]

مسعود ابدالی

جس وقت قارئین ان سطور کا مطالعہ فرمارہے ہیں، غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا یہ اکیسواں دن ہے۔ اسپتال، پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں، مساجد اور اسکول اس ابرِ ستم کا خاص نشانہ ہیں۔ 14 اکتوبر کو مرکزی غزہ میں المستشفی الاھلی العربي (عرب عوامی اسپتال) کے اسرائیلی بمباروں نے پرخچے اڑادیے۔ اس حملے میں جاں بلب مریضوں، مسیحائوں، طبی عملے اور لواحقین سمیت 800 افراد مارے گئے۔ المستشفی المعمداني (Baptist Hospital)کے نام سے مشہور یہ بیمارستان 1882ء میں گرجائے انگلستان کے ذیلی ادارے چرچ مشن سوسائٹی نے قائم کیا، جس کا انتظام مسیحی NGO کے ہاتھ میں تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تادم تحریر 7 اسپتال اور 24 شفاخانے پیوندِ خاک کیے گئے۔
جس وقت اسرائیلی طیارے عرب عوامی اسپتال کی مریضوں سمیت اینٹ سے اینٹ بجارہے تھے، امریکی صدر کا طیارہ اسرائیل کی طرف محوِپرواز تھا۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کے دورے کا ایک نکاتی ایجنڈا اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے غیر مشروط حمایت و پشت پناہی کی یقین دہانی ہے۔ اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے فرمایا ”غزہ اسپتال پر بمباری کا ذمہ دار اسرائیل نہیں، یہ دوسری ”ٹیم“ کی کارروائی ہے۔ سیاسی و اخلاقی اقدار کے اعتبار سے اسرائیل، امریکہ اور دوسری جمہوریتوں کا معیار ایک ہے“۔ جہاں تک امریکی صدر کے اخلاقی معیار کا تعلق ہے تو اس کا اظہار الفاظ کے چناؤ سے ہی ہوگیا جب انھوں نے اسرائیلی حملے کا دفاع کرنے والوں کو ”دوسری ٹیم“ کہا۔ گویا یہ دو ٹیموں کے درمیان کھیل ہے۔ قدیم یونانی میلوں میں ایسے ہی کھیل ہوتے تھے جب چھروں سے مسلح ایک ٹیم کے مقابلے میں نہتوں کو اتارا جاتا تھا۔
صدر بائیڈن کے اس انسانیت سوز رویّے پر اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) کے امیر ڈاکٹر محسن انصاری نے اپنے ایک بصری پیغام میں کہا ”بائیڈن صاحب! تاریخ میں آپ کو امریکہ کے صدر اور آزاد دنیا کے اُس قائد کی حیثیت سے یاد رکھا جائےگا جس نے ایک ملک کا ٹھیک اُس روز دورہ فرمایا جس دن اس نے ایک اسپتال پر بمباری کرکے 800 شہریوں کو قتل کردیا اور آپ نے (اس وحشی کی) غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ یہ بات تاریخ کے صفحات سے محو ہونے والی نہیں۔“
اس کے پانچ دن بعد 19 اکتوہر کو 1600 سال قدیم یونانی قدامت پسندSaint Porphyrios گرجے کو نشانہ بنایا گیا جہاں بمباری سے بے گھر ہونے والے پناہ گزین موجود تھے۔
جنگی جنون میں اسرائیلی حکومت تلمود (یہودی فقہ) کو بھی نظرانداز کررہی ہے جس کے تحت ہفتہ یوم سبت ہے۔ اس روز کھانا پکانے سمیت کوئی کام نہیں کیا جاتا، حتیٰ کہ گھر کی گھنٹی اور کمپیوٹر پر کی بورڈ دبانا بھی حرام ہے۔ جمعہ کو غروبِ آفتاب سے ہفتے کو رات چھا جانے تک پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ اسرائیلی ائرلائن کی اندرون ملک پروازیں معطل رہتی ہیں اوربندرگاہوں پر بھی کام نہیں ہوتا۔ گزشتہ ہفتے ایک حکم کے تحت سپاہی ڈھونے کی غرض سے اسرائیلی ائرلائن نے ہفتے کو سبت کی پابندیاں معطل کردیں۔
بحرِ روم کے ساحل پر اس 8 سے 12 کلومیٹر چوڑی پٹی کے باسیوں کو اب ایک نئی آزمائش کا سامنا ہے۔ یہ بے کس دوا اور غذا کو تو ترس ہی رہے تھے اب ان کے پاس اپنے مُردوں کے لیے کفن بھی نہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو پرانے کپڑوں سے تراشے کفن میں سپردِ خاک کررہے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں ان پریشان حالوں کو مبارک باد دینے کا دل چاہا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی پرانے کپڑوں میں دفن کیے گئے تھے۔ آئس کریم کے ٹرک لاشیں محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور اب رضاکاروں نے کفن کے لیے پرانے کپڑے جمع کرنے شروع کردیے ہیں۔ فاسفورس بموں میں جھلسی بہت سی لاشیں عملاً راکھ کا ڈھیر بلکہ مشتِ غبار ہیں اور انھیں کفن اور قبر کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے بے نیاز رب نے اپنے بندوں کو بھی تجہیز و تکفین اور دوشِ عزیزاں کی زحمت سے بے نیاز کردیا ہے۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
سفید فاسفورس کے استعمال کی بات فلسطینیوں نے نہیں بلکہ انسانی حقوق کی تنظیم برائے یورپ و بحر روم Euro-Med Monitorنے اٹھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں سفید فاسفورس استعمال کررہا ہے جس کا استعمال اقوام متحدہ نے غیرقانونی قراردیا ہے۔
غزہ میں بے گناہوں کے خون سے کھیلی جانے والی شیطانی ہولی پر امریکی صدر سمیت مغربی دنیا کی قیادات جس تکبرانہ انداز میں تالیاں بجاکر وحشیوں کو شاباش دے رہی ہے اس کی وجہ سے دنیا میں نفرت اور عدم برداشت کی لہر امڈ آئی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے دفاع میں جاری ہونے والے بے رحمانہ بیانات سے پھوٹنے والی چنگاری امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران دو زندگیاں بھسم کرگئی۔ 14 اکتوبر کو شکاگو میں ایک 6 سالہ مسلمان بچہ نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا جب معصوم ودیع الفیوم کو 26 بار چھرا گھونپ کر موت کے گھاٹ اتاراگیا۔ اس کی ماں شدید زخمی ہے۔
اس وحشت کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 21اکتوبر کو ڈیٹرائٹ کے مضافاتی علاقے Lafayetteپارک میں ایک یہودی معبد(Synagogue) کی سربراہ محترمہ سمنتھا وول (Samantha Woll) بے دردی سے قتل کردی گئیں۔ چالیس سالہ سمنتھاکی لاش اُن کے گھر کے باہر پڑی تھی اور خون کے نشان گھر کے اندر تک تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ حملہ آور نے گھر کے اندر انھیں چھرا گھونپا اور یہ خاتون جان بچانے کے لیے گھر سے باہر بھاگی جہاں اس نے دم توڑ دیا۔ ڈیٹرائٹ میں عرب مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ فلسطینی نژاد رکن کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔ سمنتھا وول ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک مقبول مذہبی رہنما تھیں۔ اعلیٰ ظرفی و برداشت اور رکھ رکھائو کی بناپر اُن کے مسلمانوں سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ مسلمانوں سے ہم آہنگی کے لیے انھوں نے Greater Detroit Muslim Jewish Solidarity Council تشکیل دی تھی۔امریکہ کے مختلف شہروں میں مساجد و مدارس کے ساتھ یہودی معبدوں کو بھی دھمکیاں موصول ہورہی ہیں جو اسرائیلی و مغربی رہنمائوں کے نفرت و حقارت پر مبنی آتشیں بیانات بلکہ بیانیے کا شاخسانہ ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ہفتے پولیس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی ادارہ برائے تحقیقات (FBI) کے سربراہ کرسٹوفر رے (Christ Wrey)نے امریکی عوام کو متنبہ کیا کہ فلسطینی انتہاپسندوں سے متاثر عناصر حماس جیسی کارروائی امریکہ میں بھی کرسکتے ہیں۔داخلی سلامتی کے کلیدی سربراہ کی جانب سے اس قسم کی گفتگو نے مسلمانوں اور خاص طور سے فلسطین نژاد امریکیوں کو معاشرے میں مشکوک بنادیا ہے۔
ایک طرف اہلِ غزہ فاسفورس بموں سے جھلسائے جارہے ہیں، دوسری جانب مرغِ بسمل کو تڑپنے کی بھی اجازت نہیں۔ ابلاغِ عامہ کے روایتی ذرائع فلسطینی مزاحمت کاروں کو وحشی اور خونی ثابت کررہے ہیں تو سماجی رابطوں کے ذرائع بدترین سنسر کا شکار ہیں۔ فیس بک، X (ٹوئٹر)، انسٹاگرام اور یوٹیوب وغیرہ پر اسرائیلی مظالم سے متعلق مواد شائع کرنا ممنوع ہے۔ اکائونٹ کی بندش کے ساتھ reach محدود کرنے کی حکمت عملی استعمال ہورہی ہے۔
غزہ میں قلم کے مزدوروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن Committee to Protect Journalists یا CPJکے مطابق بمباری سے اب تک 17 صحافی مار ے گئے جن میں13 فلسطینی، 3 اسرائیلی اور ایک لبنانی تھا۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیراطلاعات سلام کرہی نے بہت فخر سے بتایا کہ ہنگامی حالت کے تحت الجزیرہ سمیت غیر ملکی خبر رساں اداروں پر “وقتی” پابندی کا قانون منظور کرلیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل حالتِ جنگ میں ہے، اسے زمین، فضا اور سمندر کے ساتھ سفارتی و صحافتی محاذ پر بھی جارحیت کا سامنا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں پر بھی کہیں اعلانیہ پابندی، تو کہیں انتظامی رخنہ اندازی جاری ہے۔ واشنگٹن میں بمباری کے خلاف مظاہرہ کرنے والے یہودیوں پر پولیس ٹوٹ پڑی، 18 اکتوبر کو ہونے والے اس مظاہرے کا اہتمام Jewish Voice for Peaceنے کیاتھا۔ مظاہرین نے جن میں سینیٹر برنی سینڈرز بھی شامل تھے”Jews say ceasefire now”اور”Not in our name”کی ٹی شرٹ زیب تن کررکھی تھی۔ پکڑ دھکڑ کے دوران نوجوان خواتین سمیت 300 افراد کو گرفتار کرکے ان کی مشکیں کس دی گئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین امریکی کانگریس کی عمارت میں گھس گئے اور انھوں نے تنبیہ نظرانداز کرتے ہوئے سڑک پر ٹریفک میں خلل ڈالا۔
ہالینڈ، جرمنی اور فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگادی ہے۔ فرانسیسی وزیرداخلہ نے فرمایا کہ ان مظاہروں سے امنِ عامہ کی صورتِ حال متاثر ہوسکتی ہے۔ گویا تحفظِ آزادیِ اظہار کے نام پر قرآن جلانے اور خاکے اڑانے کی کھلی اجازت لیکن پُرامن مظاہرے ممنوع۔ مزے کی بات کہ اسرائیل کے حق میں مظاہروں پر کوئی پابندی نہیں۔ اس حوالے سے دہرے معیار کی ایک اور مثال قارئین کی دلچسپی کے لیے:
فرانس میں حالیہ تعلیمی سال کے آغاز سے کلاس کے دوران اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جب مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو صدر ایمانوئل میکراں نے موقف اختیار کیا کہ ”معاملہ ہماری سیکولر اقدار کا ہے جس کے تحت سرکاری اسکولوں سمیت پبلک مقامات پر کسی بھی مذہبی شناخت کی نمائش مناسب نہیں“۔ حقیر سی اقلیت نے یہ کڑوی گولی نگل لی۔ لیکن حالیہ دنوں جہاں ایفل ٹاور کو ہم آہنگی کے اظہار کے لیے اسرائیلی پرچم کی نیلی اور سفید روشنیوں سے منور کیا گیا وہیں کھمبوں پر ستارہ دائودؑ بھی ٹانک دیے گئے ہیں۔ یورپ بھر میں ہلال مسلمانوں، صلیب مسیحیوں اور ستارہ دائودؑ یہودیوں کی شناخت ہے۔
فٹ بال کے مشہور ولندیزی (Dutch) کھلاڑی انور الغازی کو ان کے Mains 5فٹ بال کلب نے اسرائیل کے بارے میں”ناپسندیدہ” فیس بک پوسٹ لکھنے پر معطل کردیا۔
چند روز قبل امریکہ کی مشہور درسگاہ جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University) کے ایک استاد کو معطل کردیاگیا۔ اُن پر الزام ہے کہ ایک لیکچر میں موصوف نے اسرائیل کو توسیع پسند ریاست قرار دیا تھا۔ اسٹینفورڈ کے علاوہ تمام جامعات میں یہود مخالف رویّے یا Antisemitismکے نام پرسیاسی و نظریاتی نشاندہی اور بوقتِ ضرورت تطہیر کا عمل جاری ہے۔ غزہ جارحیت سے اہلِ غزہ پر جو بیت رہی ہے وہ اپنی جگہ، لیکن مغرب کا چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا، یعنی آزادیِ اظہار اور جمہوریت ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔
گفتگو کا اختتام ایک اچھے نوٹ پر کہ گزشتہ جمعہ اہلِ غزہ نے زیرحراست ماں بیٹی کو رہا کردیا۔ امریکی ریاست الینوائے (Illinois)کی 59 سالہ جوڈی رنان اور ان کی 18 سالہ صاحب زادی نتالی رونان 7 اکتوبر کو اسرائیلی فوج پر حملے میں گرفتار ہوئی تھیں۔ غزہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ”ماں بیٹی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا ہے۔ اس قدم سے یہ ثابت ہوگیا کہ بائیڈن اور ان کی فاشسٹ انتظامیہ کے دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔“کاش ایسی ہی خیرسگالی کا اظہار دوسری جانب سے بھی ہو۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *