بانگ درا ہندوستان کی تاریخ میں سیاسی اہمیت کا حامل: پر وفیسر عبدالحق

بانگ درا زندہ متن ہےاور زندہ متن وقت کے ساتھ بدلتے طرز تفہیم کو نئے سرے سے غورو فکر کی دعوت دیتاہے،نیا حوصلہ اور نئے ولولے عطا کرتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویریو این آئی</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل تصویریو این آئی</p></div>

فائل تصویریو این آئی

user

بانگ درا اقبال کا اولین اردو مجموعہ کلام  ہے یہ کتاب اقبال کی فکر کے ارتقا ئی مراحل کا پتا دیتی ہے سالِ رواں بانگ درا کی اشاعت کا سواں سال ہے  ایک صدی گزرنے کے بعد بھی فکر اقبال کی تازگی ماند نہیں پڑی ہے  بانگ درا زندہ متن ہے۔ زندہ متن وقت کے ساتھ بدلتے طرز تفہیم کو نئے سرے سے غورو فکر کی دعوت دیتاہے،نیا حوصلہ اور نئے ولولے عطا کرتا ہے ان خیالا ت کا اظہارسمینار کے کنوینر پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ”بانگ درا“ کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

پر وگرام سے قبل سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی وفات پر قراداد پیش کی گئی -منموہن سنگھ کو ان کی اقبال شیدائی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ ہمارے سابق وزیر اعظم کو دیوناگری نہیں آتی تھی اس لیے وہ نستعلیق میں ہی پڑھتے تھے اور علامہ اقبال کے شیدائی تھے، انھوں نے پارلیمنٹ میں جتنے بھی اشعار پڑھے اتفاق سے سبھی اقبال کے ہی تھے۔ اس موقع پر یہی دعا گو ہوں کہ اللہ ان کی روح کو سکون بخشے۔

افتتاحی تقریب میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کلیدی خطبہ پیش کر تے ہوئے کہا کہ اقبال سے پہلے اردو نظموں کا دائرہ بہت محدود تھا۔ موضوع و اسلوب دونوں اعتبار سے اقبال اپنی نظموں میں منفرد و یکتا نظر آتے ہیں۔ اقبال کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نظموں میں متضاد کیفیات و منظرنگاری کو پیش کرتے ہیں، اگرچہ وہ انگریزی مفکرین سے متاثر تھے لیکن انھوں نے اپنی شاعری کو قرآن اور اسوہ رسول پر مرکوز رکھا۔ بطور مہمانِ خصوصی پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال جتنے اہم کل تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ بیسویں صدی اقبال کی صدی تھی۔ اقبال نے جس نظام کا خواب دیکھا وہ نظامِ عدل و انصاف تھا جو اسلام پر مبنی تھا۔

صدراتی خطاب میں پروفیسر عبدالحق نے اردو اکادمی دہلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس ادارہ کی اولیت ہے کہ اس قسم کا پروگرام منعقد کیا۔انہوں نے بانگ درا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانگ درا ہندوستان کی تاریخ میں سیاسی اہمیت کا حامل ہے، بیسویں صدی کی ابتدائی پچیس سال کی ہندوستانی تاریخ کی تخلیقی مثال ہے، اسی زمانے میں اقبال پہلا شاعرہے جس کے اشعار محاوروں کی شکل میں زبان زد و عام ہوئے۔

پروفیسر خالد علوی نے تمام مقالات پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ نے تضادات کا خوب استعمال کیا ہے۔آج بھی علامہ کے بعض اشعار ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ گیان چند جین کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بانگِ درا کے ہوتے ہوئے کوئی دیوانِ غالب اٹھارہا ہے تو مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے۔اقبال کی شاعری میں آج بھی کچھ اشارات ایسے ہیں جن کے جوابات نہیں ملتے ہیں، اگر ہم جوابات ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اردو اکادمی دہلی جیسا کہ اپنی علمی، ادبی و ثقافتی روایات کی تر ویج و تشہیر کے لیے ایک منفر د ادار ہ ہے اس ادارہ نے عظیم و مفکر و شاعر علامہ اقبال کا لازوال شعری مجموعہ ”بانگ درا“ کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پرسمینار کا انعقادکیا جس میں ملک بھر سے دانشور ان و ادبا شریک ہوئے۔ سمینار میں گورننگ کونسل کے ممبران میں شیخ علیم الدین اسعدی، محمد فیروز صدیقی اور پروفیسر مظہر احمد کے علاوہ پروفیسر خالد محمود، پروفیسر خالد اشرف، ڈاکٹر محمد مستمر، ڈاکٹر ذکی طارق، ڈاکٹر مسعود جاوید،ڈاکٹر نعمان قیصر،ڈاکٹر ابراہیم افسر اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات موجود تھے۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *