کرامات حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی ؓ

[]

(از: سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی)

حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا، اس پر تمام مورخین و مصنفین کا اتفاق ہے۔ اولیاء اللہ کی کرامات انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا پرتو ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے بہت سے معجزات شیخ جلال الدین السیوطی رحمت اللہ علیہ نے خصائص الکبر ا میں بیان کئے ہیں۔

شیخ قدوہ ابوالحسن قرشی رحمت اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں 559 ہجری میں سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی مجلس میں حاضر تھا تو روافضہ کی ایک جماعت دو سلے ہوئے مہر شدہ تھیلے لیکر آئی اور حضرت سے سوال کیا کہ ان دو تھیلوں میں کیا چیز ہے؟ آپ نے کرسی سے اتر کر ان میں سے ایک تھیلے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ” اس میں ایک اپاہج بچّہ ہے۔” کہہ کر اپنے صاحب زادے حضرت شیخ عبد الرزاق کو حکم دیا کہ اس تھیلے کو کھولو۔ چنانچہ جب اسے کھولاگیا تو واقعی اس میں ایک اپاہج بچّہ موجود تھا۔ آپ نے اس پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ “خدا کے حکم سے کھڑے ہوجا۔” یہ سنتے ہی وہ بچّہ کھڑے ہوکر بھاگنے لگا۔ پھر دوسرے تھیلے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ” اس میں ایک صحتمند بچّہ ہے۔” جب تھیلا کھولا گیا تو واقعی اس میں سے ایک صحتمند بچّہ نکل کر بھاگنے لگا۔ لیکن سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی پیشانی پکڑ کر فرمایا کہ بیٹھ جا چنانچہ وہ بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ آپ کے عقیدتمند ہوکر آپ کے مرید ہوگئے۔ (قلائد الجواہر)

شیخ عدی بن برکات اپنے والد اور چچا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے واعظ کے دوران بارش ہونے لگی اور اہل مجلس منتشر ہونے لگے اس وقت حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے آسمان کی جانب نظر اٹھاکر فرمایا کہ “میں تو تیرے لئے لوگوں کو جمع کرتا ہوں اور تو منتشر کردیتا ہے۔” چنانچ اسی وقت آپکی مجلس پر سے تو بارش بند ہوگئی لیکن مدرسہ سے باہر مسلسل ہوتی رہی۔ پھر آپ یہ شعر پڑھے:

مافی الصّبابۃ منھل مستعذب ؛ الّا ولی فی ہالا لذّالاطیب

وادی عشق میں کوئی شیریں چشمہ ایسا نہیں؛ جو کہ تیری نہر عشق سے زیادہ لذیذ و شیریں ہو (قلائد الجواہر)

حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہر وردی رحمت اللہ علیہ (بانی سلسلہ سہر وردیہ)، اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ “میں علم کلام سے شغف رکھتا تھا اور بہت سی کتابیں مجھے حفظ تھیں۔ اس علم پر مجھ کو عبور حاصل تھا ۔ اس سلسلہ میں میرے چچا اکثر مجھے برا بھلا کہتے تھے۔ لیکن میں کوئی اثر نہیں لیتا تھا۔ آخر کار وہ مجھے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں لیکر حاضر ہوئے تو حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے پوچھا ” ائے عمر تم نے کون کون سے کتابیں ازبر یاد کرلی ہیں؟ ” میں جب ان کتابوں کے نام بیان کیا تو آپ نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ میرے ذہن سے ان کتابوں کا ایک ایک حرف محو ہوگیا اور اس کے بجائے ایسا علم لدنّی حاصل ہوگیا کہ آپ کے پاس سے اٹھنے کے بعد میں حکیمانہ باتیں کرنے لگا۔ میرے سینے پر دست شفقت رکھتے وقت حضرت نے یہ بھی پیشن گوئی کردی تھی کہ “ائے عمر! تو عراق کے مشاہیر میں سے ہوگا۔” حضرت شیخ فی الواقع اہل طریقت کے سلطان تھے اور کار خانہء قدرت پر پوری طرح متصرف تھے۔ (قلائد الجواہر)

ابوبکر قیّمی بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر العمری نے مجھ سے اپنا واقعہ سنایا کہ سفر حج میں میرے ہمراہ جیلان کا باشندہ تھا۔ جب اسکو اسکی موت کا یقین ہوگیا تو اس نے مجھے دس دینار حوالہ کرتے ہوئے وصیت کی کہ “یہ خرقہ اور اور رقم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے سپرد کردینا اور کہہ دینا کہ میرے اوپر نظر کرم رکھیں۔” اس وصیت کے بعد وہ فوت ہوگیا۔ لیکن بغداد واپس آنے کے بعد میں نے یہ سونچا کہ میرے اور مرحوم کے علاوہ کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے، لہذہ لالچ میں آکر وہ رقم میں نے اپنی ذات پر خرچ کرلی ابھی چند یوم گذرے تھے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ سے راستہ میں ملاقات ہوگئی۔

میں نے سلام کرکے مصافحہ کیا تو آپ نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور فرمایا: “اے مسکین ! تو نے صرف دس دینار کی خاطر مرحوم کی امانت میں خیانت کرڈالی۔” یہ فرماکر آپ نے میرا ہاتھ چھوڑا تو میں بیہوش ہوگیا اور حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ واپس چلے گئے لیکن ہوش میں آنے کے بعد میں نے وہ رقم اور خرقہ گھر سے لیجاکر حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کردیئے۔ (قلائد الجواہر صفحات 192، 193 مصنف محمد یحی تادنی رحمت اللہ علیہ)

ایک عورت اپنے لڑکے کو حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں لاکر کہنے لگی: “میرا یہ فرزند آپ سے بے حد عقیدت رکھتا ہے، میں چاہتی ہوں کہ یہ آپ سے اکتساب فیض کرے ، اسے اپنی غلامی میں قبول فرمائیں۔” آپنے اس عورت کی استدعا قبول کرلی اور اس لڑکے کو ریاضت و مجاہدہ پر لگادیا تاکہ سلوک کا طریقہ سیکھ کر مرتبہ کمال تک پہنچے ۔ ایک دن وہ عورت اپنے لڑکے سے ملنے آئی تو دیکھا کہ لڑکے کا چہرہ زرد ہوچکا ہے، نہایت کمزور بھی ہوگیا ہے اور جو کی روٹی کھارہا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ کے سامنے ایک برتن پایا جس میں مرغی کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں جو آپ نے تناول فرما کر برتن میں ڈالدین تھیں۔

اس عورت نے جب یہ دیکھا تو کہا ،میرے سردار! آپ خود تو مرغی کھاتے ہیں اور میرا بیٹا جو کی روٹی کھاتاہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنا دست مبارک ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا: “قم باذن اللہ الذی یحیی العظام وھی رمیم ۔ اللہ تعالی کے حکم سے کھڑی ہوجا جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کریگا۔” اس وقت وہ مرغی زندہ ہوکر کھڑی ہوگئی اور شور مچانے لگی۔ عورت سکتے میں آگئی۔ تب سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت سے فرمایا: “جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائیگا تو جو چاہے کھائے۔ (بہجتہ الاسرار، صفحات: 192، 193، مصنف امام ابوالجسن الشنوفی رحمت اللہ علیہ)

حضرت بزار رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں: “میں نے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ قدس سرہ النورانی سے سنا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کرسی پر بیٹھے فرمارہے تھے کہ ایک عورت حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی مرید ہوئی۔ اس پر ایک فاسق شخص عاشق تھا۔ ایک دن وہ عورت کسی حاجت سے پہاڑ کے غار میں گئی تو اس فاسق شخص کو بھی اس کا علم ہوگیا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا حتی کہ اس کو پکڑ لیا۔ وہ اس کے دامن عصمت کو ناپاک کرنا چاہتا تھا تو اس عورت نے بارگاہ غوثیہ میں اس طرح استغاثہ کیا :”الغیاث یا غوث اعظم، الغیاث یا غوث الثقلین، الغیاث یا شیخ محی الدین، الغیاث یا سیدی عبد القادر۔” اس وقت حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مدرسہ میں وضو فرمارہے تھے آپ نے اس کی فریاد سن کر اپنی کھڑاؤں کو غار کی طرف پھینکا وہ کھڑاؤں اس فاسق کے سر پر لگنی شروع ہوگئی حتی کہ وہ مرگیا۔ وہ عورت آپ کی نعلین مبارک (کھڑاؤں) لے کر حاضر خدمت ہوئی اور آپ کی مجلس میں سارہ واقعہ بیان کردیا۔(تفریح الخاطر صفحہ 37)

شیخ خضر الحسینی موصلی بیان کرتے ہیں کہ میں تیرہ سال حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں رہا اور بہت سی خارق عادات کرامات دیکھتا رہا۔ لیکن ان کرامتوں میں سے ایک عظیم کرامت یہ تھی کہ جب اطباء کسی مریض سے مایوس ہوجاتے تو اس کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا۔ اور آپ اس کے جسم پر دست مبارک پھیر کر دعاء فرماتے تو وہ مریض فورا” شفایاب ہوجاتا اور مرض جڑ سے نکل جاتا۔ چنانچہ ایک مرتبہ خلیفہ مستنجد باللہ کا ایک قریبی عزیز مرض استسقاء میں مبتلا ہوکر آپ کے پاس لایا گیا اس کا پیٹ پانی پیتے پیتے ڈھول بن گیا تھا۔ جب اس کے پیٹ پر حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ اسطرح دب گیا گویا اس کو کوئی مرض تھا ہی نہیں۔ ایک مرتبہ ابوالمعلی احمد بغدادی نے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا کہ میرا بچہ محمد پندرہ ماہ سے بخار میں مبتلا ہے اور کسی وقت بھی بخار کم نہیں ہوتا۔

آپ نے فرمایا :”جاکر اس کے کان میں یہ کہہ دو کہ اے ام ملدم ! حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا ہے کہ میرے بچے پر سے حلّہ کی طرف چلاجا۔” کچھ دنوں کے بعد جب لوگوں نے میرے بچے کی حالت پوچھی تو میں نے بتادیا کہ جب سے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا اس وقت سے کبھی بخار نہیں آیا۔ اور کئی سال تک بغداد میں بخار کی وباء نہیں پھیلی بلکہ اس کا پورا زور حلّہ کی طرف رہا۔ (قلائد الجواہر صفحات 124، 125)

٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *