[]
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے کہا ہے کہ برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کے مطابق غزہ میں فلسطینی گروہوں کے ساتھ جھڑپیں اور حملے شروع ہونے کے بعد اسرائیل کی اقتصادی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ صہیونی مبصرین حکومت کو درپیش معاشی مشکلات کے بارے میں تشویش ظاہر کررہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی جنگ طویل ہونے کی صورت میں صہیونی حکومت کو شدید معاشی مشکلات پیش آئیں گی۔ جنگی بجٹ میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا جس سے عام لوگ شدید متاثر ہوں گے۔
اخبار کے مطابق صہیونی حکومت ابھی تک 7 اکتوبر کو اچانک ہونے والے حملے کے بعد خود کو اچھی طرح نہیں سنبھال سکی ہے، دوسری جانب بیرونی ممالک واقع تجارتی کمپنیوں کی طرف سے ملنے والی مالی امداد بھی بند ہوگئی ہے۔ کسی بھی وقت حملے کا خطرہ ہونے کی وجہ بازاریں اور مارکیٹیں بند ہیں جس سے معیشت کا پٹہ بیٹھ گیا ہے۔
اخبار نے مزید لکھا ہے کہ حماس کے اچانک میزائل حملوں کے ابتدائی گھنٹوں میں ریسٹورنٹس، شاپنگ مال اور غیر ملکی پروازیں معطل ہوگئی تھیں جو اب تک بحال نہ ہوسکی ہیں۔
اخبار نے صہیونی فوج کو درپیش افرادی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مقاومتی گروہوں کے حملوں کے بعد اسرائیل میں 360000 ریزرو فورسز کو دوبارہ بلایا گیا ہے جس کی وجہ تجارتی اداروں میں افرادی قوت کی شدید قلت ہوگئی ہے۔
غزہ اور لبنان سے وقفے وقفے سے میزائل حملے اور فلسطینی عوام کو جبری مہاجرت پر مجبور کرنے کی وجہ سے انشورنس کمپنیوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ جنگ طویل ہونے کی خبروں کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں انڈیکس خطرناک حد تک نیچے آگیا ہے۔ اسرائیلی کرنسی شکل کی قدر میں چار فیصد کمی آگئی ہے۔
فنانشل ٹائمز نے سرمایہ کاری کی معروف کمپنی کے اقتصادی مبصر جی بٹ آور کے حوالے لکھا ہے کہ حالیہ جنگ میں اسرائیل کو ہونے والا نقصان 2006 میں حزب اللہ کے ہونے والی جنگ سے کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔