یو سی سی ٹائیں ٹائیں فشصاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

[]

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

ارسطو نے کہا تھا دنیا گھانس سے بھرا ہوا ایک کنواں ہے عقلمندوں کو اس میں ہوشیاری کے ساتھ قدم رکھنا چاہئے۔ ادھر بقراط نے کہا کہ جھوٹ تمام گناہوں کی ماں اور سچ تمام برائیوں کا علاج ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ کے پس منظر میں ہم لوگ غیر ضروری طورپر گھانس کے کنویں میں ڈھنستے چلے جارہے ہیں یا تو پھر یوسی سی کی جھوٹ ہمیں غیر ضروری بحران سے دوچار کر رہی ہے جو ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے یعنی ہم سب ایک ایسی شئے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جس کا عملی طورپر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اس وقت ہندوستان میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ہمیں یہ بتا دے کہ یونیفارم سیول کوڈ کا مسودہ کہاں ہے ؟اس میں کیا ہے ؟ اس میں کیا ہوگا؟ اور یہ ہمارے ملک کو کہاں سے کہاں لے جائے گا؟
آر ایس ایس کے مہاتما گرو گووالکر نے خود کامن سیول کوڈ کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اپنے ہی اخبار آرگنائزر میں ایک طویل ترین انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ ہمارے ملک کا تانا بانا بکھیر دے گا۔ ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے اور اس پر کوئی خاص چھاپ چھوڑنا ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جاسکتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ‘آر ایس ایس کے اس عظیم ترین قائد کی باتوں کو بھی سمجھ نہیں پارہی ہے جس نے غیر معمولی فرقہ پرست ہونے کے باوجود یہ کہا تھا کہ اگر مسلمان اپنی علحدہ شناخت بھی برقرار رکھتے ہیں تو کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ ملک کا اتحاد اور بھائی چارہ اہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بحث اپنے آغاز پر ہی دم توڑ چکی ہے کیونکہ پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی کے چیرمین سشیل کمار شنڈے نے یہ کہہ کر کہ ملک کے قبائیلیوں کو یونیفارم سیول کوڈ سے علحدہ رکھا جانا چاہئے ‘ اس مجوزہ کوڈ کی بنیادی روح کو ہی ختم کردیا ہے یعنی یونیفارم سیول کوڈ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ہے۔
دوسری جانب سکھوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مخالفت نے اس سمت میں اور بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ یہ محسوس کرنا کہ یونیفارم سیول کوڈ صرف مسلمانوں ہی کو زک پہنچائے گا کوئی قابل قبول Logic نہیں ہے۔ پورے ملک میں فوجداری معاملات میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ہر فرقہ نے فوجداری قانون کو اپنے سینے سے لگایا ہے۔ کسی کو بھی کسی بھی نکتہ پر اعتراض نہیں ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ کیونکہ شخصی رسومات ، شخصی قوانین ، مخصوص ثقافت اور تہذیب سے تعلق رکھتا ہے اسی لئے یہ بحث کا موضوع بن جاتا ہے اور ہر فرقہ وہ طبقہ یا چاہتا ہے اس کی وراثت کو نا چھینا جائے۔
یونیفارم سیول کوڈ کوہمارے ملک کا کوئی بھی قائد ڈی کوڈ کرنے کے موقف میں نہیں ہے حتی کہ کچھ ماہرین قانون کا یہ خیال ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی اس کی گہرائی سے واقف نہیں ہے۔ انہوں نے 2024 کے چناؤ کے لئے بحث کا مرکزی موضوع بنانے کی خاطر اس مسئلہ کو الجھایا ہے۔ عام آدمی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی نے فی الفور اس تجویز کی بلا سوچے سمجھے تائید کا اعلان کردیا لیکن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ غلط سمت میں جارہے ہیں تو فوراً اپنی غلطی کی تصحیح کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ تمام لوگوں کی رائے لینے کے بعد ہی کوئی قطعی فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ پنجاب میں یونیفارم سیول کوڈ کی زبردست مخالفت کی جارہی ہے۔ اور یہ اتنا نازک معاملہ ہے کہ پنجاب کے چیف منسٹر بھگونت سنگھ مان کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ یو سی سی کے حق میں نہیں ہیں۔
ٹاملناڈو کی برسر اقتدار ڈی ایم کے حکومت نے تو کھل کر کہہ دیا کہ یہ عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی مذموم سازش ہے جس کی ہر حال میں مخالفت کی جائے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف اے آئی ڈی ایم کے نے تو اسے اقلیت دشمن تجویز قرار دیا اور کہا کہ وہ بھی اس کی شدت سے مخالفت کرے گی۔
ماہرین قانون اس بات پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں کہ مسودہ کی عدم موجودگی میں اس موضوع کی تائید یا مخالفت میں بحث کا کیا جانا کس حد تک درست ہے؟ خاص طورپر مسلمان اس کی مخالفت کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے آلہ کار بن رہے ہیں ۔ یعنی وہ سوچے سمجھے بغیر بی جے پی کے سیاسی ہتھکنڈے کو مضبوط کررہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلمان بھی دوسرے طبقوں کی طرح خاموشی کے ساتھ اس مسودہ کا تماشہ دیکھیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ یہ مسودۂ قانون مانسون کے پارلیمانی سیشن میں پیش ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مسودۂ قانون کی پیشکشی کے لئے جتنا وقت درکار ہوتا ہے اتنا وقت اس سیشن کے لئے موجود نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی ہوگا 2024 کے چناؤ کے بعد ہی ہوگا یعنی کچھ نہیں ہوگا جو چیز ڈھائی سو سال کے طویل عرصے میں نہیں ہوئی وہ چھ مہینے میں کیسے ہو پائے گی۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ مسودہ قطعیت بھی پا جاتا ہے تو کیا وہ صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ کرے گایا پھر اس میں کوئی یونی فار میٹی ہوگی۔ اگر یونی فارمیٹی ہوتی ہے تو یہ سب کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ جتنے بھی قانون بنتے ہیں اس میں توڑ بھی ہوتا ہے۔ جیسے گوا میں جو یونیفارم سیول کوڈ ہے اس کے مطابق اگر کسی کی بیوی صاحب اولاد نہیں ہے تو وہ دوسری شادی کرسکتا ہے یعنی کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ۔ مسلمانوں کا گھبرانا یا احتجاجی ہوجانا کوئی غیر فطری بات نہیں ہے کیونکہ ہر ملک میں اقلیتوں کو عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے لیکن کسی Non Issue پر اپنی توانائیاں ضائع کرنا اور پریشان ہوجانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ وہ دن گئے جب کسی ملک میں کچھ ہوجاتا تو دوسروں کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا لیکن آج ایک سُرسُر بتی بھی جلتی ہے تو ساری دنیا کو خبر ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی ظالمانہ قانون کسی مخصوص فرقے یا طبقے کے خلاف آتا ہے تو دنیا خاموش نہیں بیٹھتی۔ اگر کسی ملک میں خالصتان کے مسئلہ کو اچھالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہم خاموش نہیں بیٹھتے۔ ہم وہاں کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور ان سے مانگ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کی حرکتوں کی سرکوبی کریں۔
بہرحال ہم کو جھوٹ اور سچ کے بیج کے فرق کو سمجھنا چاہئے۔ یو سی سی دراصل چناوی ہتھکنڈہ کا ایک جھوٹ ہے اور سچ یہ ہے کہ اس طرح کی مذموم حرکتیں زیادہ دن نہیں چل سکتیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اگر یو سی سی کے معاملے میں سیاسی ہیرا پھیری نہیں کررہی ہے تو اسے کھل کر سامنے آنا ہوگا ۔ وہ کھل کر سامنے اس لئے نہیں آسکتی کیونکہ اس کے ترکش کے تمام تیر ختم ہوچکے ہیں اور آخری کمزور کڑی یو سی سی ہی بچی ہوئی ہے جس کا استعمال شائد ہی ممکن ہوسکے۔ ہم بی جے پی سے یہی کہیں گے کہ آنکھ مچولی کا کھیل بند کردیں اور کھل کر سامنے آئیں کہ اسے وطن سے پیار ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ جس آگ سے کھیل رہی ہے وہ ملک کو جلا سکتی ہے۔ اسی لئے ہم بھاجپا سے چاہیں گے کہ وہ اپنی مذموم حرکتوں سے باز رہے صاف انداز میں عوام سے کہہ کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ چلمن سے لگے بیٹھنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اسی لئے ہم اس سے یہی کہیں گے کہ
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *