مودی اور اسرائیلی وزیراعظم کی دوستی میں اشتراکسارے ملک کو محتاط رہنے کی ضرورت

[]




سلیم مقصود

ایک طویل عرصے سے ساری دنیا کے لوگ دیکھ رہے تھے کہ آفریقہ ‘ ایشیاء اور یوروپ کے مختلف ملکوں سے سینکڑوں یہودی اپنی 12گمشدہ نسلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پہنچ کر ہندوستان کے فرقہ پرستوں کی طرح فلسطینیوں کے جائیدادوں کی لنچنگ کیاکرتے ہیں۔ ہندوستان کی آر ایس ایس اور ہندونظریہ کی حامل پولیس کی طرح یہاں بھی ظالموں اور قابضین کو پولیس روزانہ مدد کیا کرتی ہے۔ یہاں روزانہ بے گناہوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ اس پر نہ تو عربوں کا احتجاج دیکھنے میں آتا ہے اور نہ ہی دنیا کا ضمیر اس وقت بیدار ہوتا ہے بلکہ اسرائیل سے بڑھتے ہوئے اپنے تجارتی ‘ تہذیبی اور صنعتی تعلقات پر فخر کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی مددسے مودی کے دور میں ہندوستان کے تعلقات اسرائیل اور خوشامد پسند عرب ممالک سے تیزی کے ساتھ بڑھتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوںپر مظالم اور ان کے علاقوں پر قبضہ کا سلسلہ بھی بڑھتا ہی رہا۔ مودی کی کابینہ کا خارجی امور کا وزیر انوراگ سری واستو تو عرب حکمرانوں کو بہت زیادہ عزیز تر ہوگیا۔ یہ وہی وزیر ہے جس نے شاہین باغ تحریک کے وقت ہندو فرقہ پرستوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بلا خوف و خطر گولی ماردیں۔ اسی مسلمانوں اور اسلام کے دشمن کو عمان کے وزیر ہاشم بن طارق السعدنے گلے لگا کر کہا تھا کہ عمان سے پاکستان‘ بنگلہ دیش کسی بھی قوم کے کام کرنے والوں کو ملک سے باہر کیا جائے گا لیکن 80 لاکھ ہندوستانیوں کو عمان سے نہیں نکالا جائے گا ۔ یو۔اے۔ای کے ایک وزیر نے انوراگ سے وعدہ کیا کہ ہر سال یو۔اے۔ای حکومت کی جانب سے ملازمتوں کے لئے تربیت دے کر 10ہزار ہندوستانیوں کو نوکریاں دی جائیںگی‘ حالانکہ دنیا کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کو دیکھ کر گیارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ آئندہ کس ملک کی معاشی یاصنعتی حالت کیسی رہے گی۔
مودی ‘ اسرائیلی وزیراعظم کو خوش کرنے کے لئے اسرائیل کی ہر طرح کی مدد دینے کا وعدہ کرکے مصیبت میں پھنس رہے ہیں۔ امریکہ اور روس نے اسرائیلی جنگ میں شریک ہونے کا دعویٰ ایک دھمکی کے طور پر دیا ہے۔ کیوں کہ انہیں اس بات کا پتہ ہے کہ یوکرین کی جنگ ابھی تک ختم ہونے نہیں پائی دنیا ایک اور نئی جنگ کس طرح برداشت کرسکتی ہے۔ مودی‘ نیتن یاہو کی تائید کرکے ان سے اپنی گہری دوستی اوران کی سیاسی بقاء کا امیدوار قراردینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حماس اسرائیل جنگ کی شروعات نہ ہوتی تو نیتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کردیاجاتا اور ان پر بعض سنگین مقدمات بھی شروع ہوجاتے اور انہیں سخت سزا دی جاتی۔
اسرائیل اورامریکہ اور برطانیہ کے بعض اہم اخبارات نے یہ بات بلا کسی جھجھک کے شائع کردی ہے کہ حماس اور اسرائیل کی یہ جنگ خود بنجامن نیتن یاہو نے ہی شروع کروائی ۔ اس جنگ سے نہ تو اسرائیل کو کوئی فائدہ ہوسکتا ہے اورنہ ہی حماس کا موقف ایسا ہے کہ وہ کوئی ایسی خطرناک اور مہنگی جنگ چھیڑسکے۔ غزہ پٹی میں20لاکھ فلسطینی رہتے ہیں اور یہ لوگ اسرائیلی حکومت کی بدترین پالیسیوں کا شکار ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کے علاوہ زندہ رہنے کے دیگر وسائل بھی اسرائیل نے ان کیلئے بند کررکھے ہیں۔ ان غریبوں کو کوئی عرب ملک مناسب مدد نہیں کرتے۔ اسرائیل ہی میں ان کے روزگار کے چھوٹے موٹے وسائل پائے جاتے ہیں۔ مغربی کنارے یعنی (West Bank) کی عباس حکومت خود اسرائیل پر انحصار کرتی ہے ۔ حال ہی میں عباس ‘ چین کے دورے پر گئے تھے مگر ایسا لگتا ہے کہ چین نے بھی ان سے کوئی مدد کا وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی اسلحہ سربراہ کیا۔ ایسی صورت میں حماس کے پاس اس جدید اسلحہ کی موجودگی اور ان کا استعمال بہت سے سوالات پیدا کردیتا ہے۔ ایران نے یہ بات صاف کردی کہ اس نے حماس کو کوئی اسلحہ سربراہ نہیں کیا اور نہ ہی اس جنگ میں اس کا کوئی ہاتھ ہے۔ عرب ممالک میں سعودی عرب‘ قطر‘ کوویت‘ فلسطینیوں کی تائید ضرور کرتے ہیں لیکن وہ انہیں عصری اسلحہ اور جنگی سازوسامان سربراہ کرنے کاخطرہ نہیں مول سکتے۔ کیوں کہ تقریباً سارے ہی عرب ممالک اسرائیل سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ پٹی پر قبضہ جمانے کے لئے اسرائیل نے یہ حرکت کی ہوگی۔ اس سے ایک طرف تو اسرائیل کے وزیراعظم کے خلاف جو عوامی تحریک طویل عرصے سے بڑے پیمانے پر چل رہی ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا اور دوسرے غزہ پٹی کا چھوٹا سا علاقہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں آجائے گا جس سے وہ حماس اور دیگر انتہا پسندوں سے نجات حاصل کرسکے گی۔
ہمارے ملک میں مودی ‘ اسلام دشمن اور مسلمانوں کی مخالف تنظیموں اور اس کے چاہنے والوں کو خوشیاں منانے کا موقع مل گیا۔ اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والے فلسطینی بچوں ‘ عورتوں اور مردوں کی شہادت سے انہیں مسرت حاصل ہورہی ہے مگر شائد انہیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ جنگ پہلی بار نہیں ہورہی ہے اور نہ ہی آخری بار ہوگی۔ دنیا کی بعض طاقتوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یہ جنگیں کروانا بہت ضروری ہے۔ ایسی جنگوں سے محفوظ رہنے کی ہمیں خود کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ بنجامن نیتن یاہو نے اسرائیل میں قانون کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کی جو کوشش کی ہے بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ مودی بھی یہی حرکت کرسکتے ہیں۔ (انہیں پتہ نہیں کہ اسرائیل اورانڈیا کے رہنے والوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے یہاں ایسی کوئی حرکت کرنا آسان نہیں ہے۔)
مودی حکومت نے ہمارے ملک کی غیرجانبدارانہ حکمت عملی کو بدلنے کی کوشش بھی شروع کردی ہے۔ سنا جارہا ہے کہ انہوں نے آزربائیجان اور آرمینیا کی لڑائی میں بھی مداخلت شروع کردی ہے۔ آذربائیجان ایک مسلم ملک ہے جس سے ہندوستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ آذربائیجان نے سخت شکایت کی ہے کہ ہندوستان آرمینیا کو اسلحہ سربراہ کررہاہے۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے اس اقدام سے مسلم ملکوں سے اس کے تعلقات بگڑسکتے ہیں۔ آذربائیجان کو شکایت ہے کہ آرمینیا نے اس کے بعض حصوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے پڑوسی ممالک بھی آذربائیجان کی تائید کرتے ہیں۔ آرمینیا کے اسلحہ جات میں طاقتور ہوجانے سے افغانستان اور پاکستان کے لئے بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے ہندوستان سے ان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل کی تائید سے ہندوستان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔ وسطی ایشیاء اور خلیج کے علاوہ ترکی ‘ اردن ‘ شام جیسے ممالک جو فلسطینیوں کی تائید کرتے ہیں ان کی ناراضگی سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوجائے گا ۔ ہندوستان میں خلیجی ممالک اور دیگر ممالک کی بڑے پیمانے پر ہونے والی سرمایہ کاری پر اس کا اثر پڑسکتا ہے۔ سعودی عرب کا تعلق فلسطینی سے نہایت ہی قریبی ہے اور G-20 کے وقت اور اس سے قبل بھی سعودی عرب نے ہندوستان میں40 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا ‘ اس پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔ ایران سے بھی ہندوستان کے تجارتی تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
اصول کی بات تو یہ ہے کہ مودی منی پور میں ہونے والی ہلاکتوں کو تین ماہ ہوگئے جسے وہ آج تک روک نہ سکے ‘ وہ ایک ہفتہ کے اندر اسرائیل میں ہلاک ہونے والے بچوں اور بزرگوں کے لئے نہ صرف ماتم کررہے ہیں بلکہ انہوں نے باضابطہ ان کے لئے دعا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
مودی کو اگر ’’وشواگرو‘‘ بننے کا شوق ہے تو وہ اسرائیل کی تائید کرنے کے بجائے دنیا کے تمام مظلومین کی تائید کریں اور ان کے تحفظ کے لئے دعا بھی کریں ۔ صرف اسرائیلیوں کیلئے دعا کرنے سے وہ وشوا گرو نہیں کہلاسکتے کیوں کہ دنیا صرف اسرائیل پر مبنی نہیں ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *