[]
مسجد اقصیٰ کی حرمت بحال کرنے ،فلسطینیوں کی نسل کشی اور کم سن قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کے خلاف طوفان اقصیٰ برپا کرنے کا اعلان
مسعود ابدالی
بمبار طیاروں، سرحدوں پر تعینات ٹینکوں، میزائیلوں، لانچرز اور توپ خانوں کے ساتھ بحر روم سے اسرائیلی بحریہ نے غزہ کو ایک بار پھر نشانے پر رکھ لیا ہے۔ بحر روم کے مشرقی ساحل پر 41 کلومیٹر لمبی یہ پٹی جنوب میں 12 اور شمال میں 6کلومیٹر چوڑی ہے۔ غزہ عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918ء میں سلطنتِ برطانیہ نے ہتھیالیا اور 1948ء میں اسے مصر کے حوالے کردیا گیا۔ جون 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیل نے صحرائے سینائی کے ساتھ غزہ بھی مصر سے چھین لیا۔ امن بات چیت کے دوران 1993ء میں معاہدہ اوسلو (ناروے) کے تحت غزہ کا انتظام مقتدرہ فلسطین (PA)کو سونپ دیا گیا۔
قطاع غزّہ یا Gaza Strip کے نام سے مشہور 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 24 لاکھ نفوس آباد ہیں، یعنی 6500 افراد فی مربع کلومیٹر۔ غزہ کی 48 فیصد آبادی 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں 51فیصد بے روزگار ہیں۔ یہ قطعہ ارض برسوں سے کھلی چھت کا جیل خانہ ہے جہاں ایک سوئی بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر نہیں آسکتی۔ بجلی اور پانی کا سلسلہ اسرائیلی فوج جس وقت چاہے منقطع کرسکتی ہے۔ یہ بے اماں آبادی گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی بمباروں کی زد میں ہے۔
ہفتے کو شروع ہونے والی پُرتشدد کارروائی، اچانک پھوٹ پڑنے والی جنگ نہیں بلکہ 1967ء میں قبضے کے بعد سے غزہ اپنے لہو میں غسل کررہا ہے۔ حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں قائم ہونے والی متعصب ترین حکومت سے ہوا۔ اس حکومت کو کسی اور نے نہیں خود اسرائیلی سراغ رساں ادارے موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو نے نسل پرست یا apartheidریاست قرار دیا (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)۔ اس سے پہلے اسرائیلی کالونیوں اور فلسطینی آبادی کے درمیان کنکریٹ کی بلند و بالا دیوار کو امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے apartheid wall کا نام دیا (ملاحظہ ہو کارٹر صاحب کی کتاب Palestone: Peace not Apartheid)۔
القدس شریف کی حیثیت تبدیل کرنا، فلسطینیوں کو ان کی آبادیوں سے بے دخل کرکے مزید اسرائیلی بستیاں بسانا اور فلسطینیوں کی نسل کُشی اس حکومت کی ترجیح ہے۔ عثمانی دور سے بیت المقدس مغربی یا یہودی کوارٹر اور القدس شریف الشرقی (East Jerusalem) المعروف مسلم کوارٹرمیں تقسیم ہے۔ مسجد اقصٰی، اس سے متصل دالان اور گنبدِ صخرا مشرقی حصے میں ہیں۔ نصف صدی پہلے 1967ء میں اسرائیلی قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں جو معاہدہ ہوا اُس کے تحت بیت المقدس کی تقسیم برقرار رہنی ہے۔ یعنی نہ مسلمان بلا اجازت مغربی حصے جائیں گے اور نہ غیر مسلم مشرقی جانب۔
یہ دراصل مشہورِ زمانہ الوضع الزاہن یا Status Quo Lawکا تسلسل تھا جو 1757ء میں عثمانیوں نے منظور کیا تھا۔ القدس شریف کو اسرائیلی Temple Mountکہتے ہیں جو عبرانی میں ہر ہاہبیت (Har haBayit) ہے۔ اس معاہدے کی طویل عرصے سے خلاف ورزی ہورہی ہے۔ نیتن یاہو انتظامیہ کے وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر اور وزیرخزانہ اس قانون کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں۔ بن گوئر صاحب نے صاف صاف کہا کہ مسلمانوں کے لیے تقدیس کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کے بعد مسجد اقصیٰ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ ہرہاہبیت ہم یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ وزیر اندرونی سلامتی خود ایک سے زیادہ بار فوج کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ تک آچکے ہیں۔ یوم فتحِ یروشلم اور عبرانی سالِ نو پر القدس شریف کی پامالی معمول ہے۔ جب مسٹر گوئر کے دالانِ مسجدِ اقصیٰ میں دندنانے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعتراض اٹھا تو وہاں اسرائیل کے مستقل نمائندے جیلاد صاحب نے فرمایا کہ ”1967ء میں Status Quoمعاہدہ جاری رکھنے پر اسرائیل کی رضامندی عالمی برادری کے غیر منصفانہ دبائو کا نتیجہ تھی“۔ القدس شریف کی پامالی فلسطینیوں کو برداشت نہیں اور طاقت کے وحشیانہ استعمال اور جانی نقصانات کے باوجود وہ اس معاملے پر اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں فلسطینی قیدیوں سے بدسلوکی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت 200 کم عمر بچوں اور 40 خواتین سمیت 5000 کے قریب فلسطینی دہشت گردی کے الزام میں نظربند ہیں۔ ان سے کبھی بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا، لیکن نئی اسرائیلی حکومت کے بعد بدسلوکی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جناب گوئر نے کنیسہ(پارلیمان) میں ایک مسودہ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت قیدیوں کی اپنے رشتے داروں سے ملاقات کم سے کم کردی جائے گی اور اہلِ خانہ کو ملاقات سے پہلے ہر بار ان کی وزارت سے خصوصی اجازت لینی ہوگی۔ چند ہفتے پہلے ایک اسرائیلی خاتون گارڈ اور فلسطینی قیدی کی ”دوستی“ کی خبر افشا ہونے پر جناب گوئر مشتعل ہوگئے اور ایک حکم کے ذریعے جیلوں میں خواتین محافظوں کی تعینانی ختم کردی گئی۔
اس کے علاوہ فلسطینی بستیوں پر فوج کے چھاپوں کے ساتھ پولیس اور فوج کی سرپرستی میں قابضین (Settlers)کی فائرنگ کے واقعات روزمرہ کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ ان معاملات پر اہلِ غزہ ایک عرصے سے اسرائیلی حکومت کو متنبہ کررہے تھے۔
ان پریشانیوں کے ساتھ سعودی عرب کی اسرائیل سے قربت بھی فلسطینیوں کے لیے رنج کا باعث ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے خبر گرم ہے کہ سعودی عرب سمیت 6 مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب اقوام متحدہ کی عالمی ڈاک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسرائیلی وزیر مواصلات ریاض آئے تو انھیں شاہی مہمان کا درجہ دیا گیا اور ریاض میں قیام کے دوران انھوں نے صبح کی عبادت کی، جس کی ابلاغِ عامہ پر خوب تشہیر ہوئی۔ اسی دوران ریاض کے کسی ہوٹل میں اسرائیلی اور سعودی شہریوں نے اپنے قومی پرچموں کے ساتھ رقص کیا۔ ان خبروں سے فلسطینیوں میں مایوسی اور غصہ تھا۔ تاہم اس کارروائی کو فلسطینیوں کا جارحانہ حملہ کہنا مناسب نہ ہوگا، کہ تشدد کی حالیہ مہم کا اغاز جمعہ کے دن غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہوا جس کے اہلِ غزہ عادی ہوچکے ہیں۔
غیر جانب دار صحافتی ذرائع کے مطابق کارروائی کا آغاز ہفتہ 7 اکتوبر کو صبح ساڑھے تین بجے جنوبی لبنان پر خوفناک راکٹ حملوں سے ہوا۔ سوشل میڈیا پر القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد ضعیف نے مسجد اقصٰی کی حرمت بحال کرنے، فلسطینیوں کی نسل کُشی اور کم سن قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کے خلاف ”طوفانِ اقصیٰ“ برپا کرنے کا اعلان کیا اور پانچ ہزار سے زیادہ آتشیں راکٹ غزہ کی سرحد سے متصل اسرائیلی مورچوں پر داغ دیے گئے۔
راکٹ حملے سے علاقے میں خاصی تباہی پھیلی، کئی اسرائیلی مورچوں اور تنصیبات کو آگ لگ گئی اور افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلڈوزروں سے رکاوٹوں کو توڑ کر مسلح فلسطینی 22 مقامات پر غزہ کی سرحد عبور کرکے اسرائیل میں داخل ہوگئے۔ کچھ فلسطینی انجن بردار پیراشوٹ کے ذریعے اسرائیلی دفاعی مورچوں کے عقب میں اترے، جبکہ ایک درجن سے زیادہ نوجوان چھوٹی تیز رفتار کشتیوں پر بحر روم کے ساحلی شہر زیکیم کی فوجی چھائونی پر چڑھ دوڑے۔ یعنی اہلِ غزہ نے برّی، بحری اور فضائی تینوں رخ سے ایسا حملہ کیا جو اسرائیلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
ان حملوں میں بیت حنون، زیکیم اور رعیم چھائونیوں پر فلسطینیوں نے قبضہ کرلیا۔ نحل بریگیڈ کے کمانڈر کرنل جاناتھن اسٹائنبرگ اور خصوصی کثیرالجہتی المعروف Ghost یونٹ کے سربراہ کرنل رائے لیوی سمیت اسرائیلی فوج کے 57 افسران ہلاک ہوگئے۔ اس دوران بہت سے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو فلسطینیوں نے جنگی قیدی بنالیا، جن میں غزہ ڈویژن کے سربراہ جنرل نمرود بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اپنے درجن بھر سپاہیوں سمیت 100 اسرائیلوں کے لاپتا ہونے کی تصدیق کی ہے، جن کے بارے میں انھیں شبہ ہے کہ یہ لوگ فلسطینیوں کی حراست میں ہیں۔ تاہم اعلامیے میں نمرود کی گرفتاری کو جھوٹ قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی حملوں میں 700 اسرائیلی مارے گئے اور 2200 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
اس ہزیمت کا بدلہ اسرائیل خوفناک بمباری سے لے رہا ہے۔ غزہ کی ایک 14 منزلہ عمارت فلسطین ٹاور کو بنکر شکن میزائیل مارکر زمیں بوس کردیا گیا، بچوں اور خواتین سمیت 250 افراد ٹاور کے ملبے میں زندہ دفن ہوگئے۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ میں اب تک 400 کے قریب شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 1500 سے زائد ہے۔ قبضہ کیے جانے والے زیادہ تر مورچے اور تنصیبات خالی کرکے فلسطینی واپس غزہ جاچکے ہیں جہاں بم و میزائیل باری کے ساتھ توپوں اور بحر روم سے گولوں کی بارش ہورہی پے۔ جمعہ کی رات سے شروع ہونے والی یہ وحشت تادم تحریر (اتوار کی شب) جاری ہے۔
فلسطینیوں کے برق رفتار حملوں سے جانی و مالی نقصان کے علاوہ اسرائیل کی ”ہر دم چوکنا اور مستعد“ رہنے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیلی محکمہ سراغ رسانی موساد اور داخلی انٹیلی جنس ’’شن بیت‘‘ المعروف شاباک اپنی پہنچ اور بروقت معلومات کے حصول کے لیے دنیا میں مشہور ہیں۔ ان کے جاسوس مسجد اقصیٰ، مغربی کنارے اور غزہ ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس موساد کے سُن گُن لینے کے نظام کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ موبائل فون پر گرفت کا یہ عالم ہے کہ ان کے جاسوس دنیا بھر میں بیک وقت لاکھوں افراد کی گفتگو مقام کی نشاندہی کے ساتھ رواں عبرانی ترجمے میں سن سکتے ہیں۔ لیکن یہ ساری پیش بندی فلسطینیوں کی حکمت کے آگے دھری کی دھری رہ گئی۔ فلسطینیوں کی بے عیب منصوبہ بندی اور بے مثال شجاعت نے اسرائیلی فوج کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم خاک میں ملادیا۔ اپنی قوتِ قاہرہ سے وہ اہلِ غزہ کو خاک و خون میں نہلا تو سکتے ہیں، لیکن فلسطینیوں کے اس تزویراتی تھپڑ کی گونج برسوں ان کی نیند اڑاتی رہے گی۔
فلسطینی جراتِ رندانہ کے انجام سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ بے مثال جرات سے انھوں نے اپنے دشمن پر کاری ضرب تو لگادی لیکن اب انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حملوں کا ہدف زیادہ سے زیادہ اسرائیلیوں کو قیدی بنانا تھا جنھیں بمباری کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف ان قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کے پاس مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ فلسطینیوں کی یہ حکمتِ عملی کتنی کامیاب رہتی ہے، تاہم ابتدائی اشارے فلسطینیوں کے لیے مثبت ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق امریکی وزیرخارجہ نے اپنے ترک ہم منصب سے اسرائیلی قیدی چھڑانے کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔ اسی کے ساتھ غزہ پر قبضے کے لیے فوجی مشقیں بھی جاری ہیں۔
اس خونریزی سے وزیراعظم نیتن یاہو کی ڈولتی حکومت کو استحکام نصیب ہوا ہے۔ عدلیہ کے پر کترنے کے لیے کنیسہ میں عدالتی اصلاحات بل کے بعد سے حزبِ اختلاف نے سارے اسرائیل کو سر پر اٹھا رکھا ہے، حتیٰ کہ اسرائیل کے امریکی اور یورپی اتحادی بھی جناب نیتن یاہو کے ان اقدامات کو اسرائیل کی جمہوریت کے لیے بدشگونی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن جنگی جنون میں جمہوریت، آزاد عدلیہ اور آزادیِ اظہار رائے کے نعرے تحلیل ہوگئے ہیں، حتیٰ کہ حزبِ اختلاف ”ہنگامی کابینہ“ کا حصہ بننے کی تیاری کررہی ہے۔
جہاں یہ کشیدگی اسرائیلی حکومت کے لیے حزبِ اختلاف کی مزاحمت سے وقتی نجات کا باعث بنی ہے وہیں سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کا معاملہ بھی کچھ عرصے کے لیے کھٹائی میں پڑتا نظر ارہا ہے۔ حملے کے فوراً بعد امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے سعودی اور قطری وزرائے خارجہ کو فون کرکے اُن سے حماس کی مذمت کے لیے کہا تھا، لیکن دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ نے اس حملے کو اسرائیلی کارروائیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس خونریزی کی ذمہ داری اسرائیل پر ہے۔ فلسطینیوں کی ابتدائی کامیابی نے ساری عرب دنیا میں زبردست جوش و خروش پیدا کردیا ہے اور سوشل میڈیا پر اسے عربوں کی عظیم فتح قرار دیا جارہا ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن بلوم برگ کے الفاظ میں ”6 اکتوبر سے پہلے ریاض اور تل ابیب تعلقات کو معمول پر لانے کے تاریخی معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن فلسطینیوں نے مشرق وسطیٰ کی ازسرنو تشکیل کے بائیڈن خواب کو آگ لگادی۔“
۰۰۰٭٭٭۰۰۰