کیا اسرائیل واقعی حماس کے حملے سے بے خبر تھا؟

[]

نصرت جاوید

ذہن میرا ضرورت سے زیادہ منطقی ہے۔ بڑھاپے میں داخل ہوجانے کے بعد ’آتش نمرود‘ میں بے خطر کودنے سے بھی خوف کھاتا ہوں۔اسی باعث پریشان ہوئے دل کے ساتھ اصرار کررہا ہوں کہ آتش انتقام سے مغلوب ہوئی اسرائیلی ریاست اب غزہ کی پٹی میں کئی دہائیوں سے جانوروں کی طرح محصور کیے 20لاکھ فلسطینیوں کو نہایت سفاکی سے موت کے منہ میں دھکیلنا چاہے گی۔ اس کی جانب سے برتی سفاکی نام نہاد مہذب دنیا ’واجب وجائز‘ ٹھہرائے گی۔ جواز یہ پیش کیا جائے گا کہ غزہ سے آئے ’دہشت گردوں‘ نے معصوم شہریوں خاص طورپر خواتین کے ساتھ ’ظلم وبربریت‘ کی انتہاؤں کو چھونے والا رویہ اختیار کیا۔
ہفتے کے دن اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں جو ہوا صہیونی ریاست کا نائن الیون شمار کیا جائے گا جس کا حساب چکانے کے لیے ایسے حملوں کی زد میں آئے ممالک کے لیے محاورے والے سات خون معاف کردیے جاتے ہیں۔پاکستان نے ایسے آتش انتقام کی قیمت رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی کئی برسوں تک ادا کی ہے۔ نائن الیون کے ذمہ داروں میں ایک بھی افغان یا پاکستانی شامل نہیں تھا۔ انھیں ’پناہ‘ اور ’تربیت کا ماحول‘فراہم کرنے کا ذمہ دار مگر افغانستان کو ٹھہرادیا گیا۔وہاں طالبان کی حکومت تھی جن کا اصل ’پشت پناہ‘ پاکستان شمار ہوتا تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان سے ’دوست یا دشمن‘ والا سوال ہوا اور جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ہامی بھرلی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے جس نے افغانستان اور پاکستان کو مسلسل استحکام اور خوش حالی سے محروم کررکھا ہے۔
چند روز گزرجانے کے بعد تقریباً ہر مسلم ملک سے مجھ جیسے عقل کے بے تحاشا غلام عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک تنظیم حماس نے ہفتے کے دن اسرائیل کے جنوب میں ہوئے واقعات کے ذریعے صہیونی نسل پرستوں کو ’اشتعال‘ دلایا۔انھیں نہایت سفاکی سے بدلہ لینے کو ’اکسایا‘۔ جو منطقی جواز دنیا بھر میں اسرائیل کی آتش انتقام کو جائز ٹھہرانے کے لیے گھڑے جائیں گے ان کے شوروغوغا کی وجہ سے کوئی یاد ہی نہیں رکھے گا کہ 20 لاکھ انسانوں پر مشتمل غزہ کی پٹی کوانسانوں سے پاک کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ فلسطینی ہونے کے جرم میں وہا ں آباد انسانوں کو ظالم کا جھاڑو محض خس وخاشاک ہی تصور کرتے ہوئے کوڑے کی صورت اٹھاکر سمندربرد کرنا چاہے گا۔
عقل کی غلامی سے مغلوب ہونے سے قبل البتہ یاد دلانا چاہوں گا کہ امریکہ اور یوروپ کی ریاستیں بھی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے بہت مرعوب رہتی ہیں۔ مذکورہ ایجنسی سے ریٹائر ہوئے کئی افراد ایشیاء،افریقہ اور لاطینی امریکہ کی بے شمار ریاستوں نے بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات پر اپنی ملازمت میں لے رکھے ہیں۔
اسرائیل سے آئے یہ ’ماہرین‘ آمرانہ حکومتوں کو اپنے ناقدین پر کڑی نگاہ رکھنے کی تربیت دینے کے علاوہ مخالفین کو بے اثر بنانے کے ہتھکنڈے بھی سکھاتے ہیں۔ اسرائیل ہی میں انٹرنیٹ کا ایک ایسا نظام بھی ایجاد ہوا جو اب نہایت مہنگے داموں اپنے عوام پر کامل کنٹرول کے جنون میں مبتلا ریاستوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اس نظام کی بدولت آپ کے زیر استعمال ٹیلی فون اور لیپ ٹاپ میں ایسا وائرس داخل کردیا جاتا ہے جو ان آلات کو غیرمحفوظ بنادیتا ہے۔ ایسے آلات کے ہوتے ہوئے میں اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھے ہوئے بھی ریاستی کارندوں کو ٹی وی پردکھائے کسی لائیو شو کے کردار کی طرح 24 گھنٹے نظر آسکتا ہوں۔ میرے کمرے میں داخل ہوئے ہر شخص کی آواز اور گفتگو بھی ریکارڈ ہوتی رہے گی۔
ایسے ’قابل رشک‘ اور ذہن کو حیران کردینے والی ٹیکنالوجی کے ’موجد‘ مگر یہ نہیں جان پائے کہ فلسطینیوں کی ایک تنظیم کیا منصوبہ بنارہی ہے۔ہفتے کے روز جو ہوا وہ ’اچانک‘ ہوہی نہیں سکتا تھا۔ مزاحمت کار غزہ کی پٹی سے غباروں کی طرح فضا میں اڑکر اسرائیل کے جنوب میں واقع ان بستیوں میں اترے جہاں کی زمین کو فلسطینیوں سے چھین کر صہیونی نسل پرستوں نے اپنی آبادی میں بدل دیا تھا۔ فضا کے علاوہ کئی مزاحمت کار سمندر کے ذریعے بھی ایسی بستیوں میں داخل ہوئے۔
اسرائیل کو کاملاً مفلوج، خوفز دہ اور بے بس دکھانے کے لیے اہم ترین حربہ اس نظام کو مفلوج بنانا تھا جو صہیونی ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے امریکہ نے بھاری بھر کم رقم سے کھڑا کیا تھا۔اس نظام کو Iron Domeکا نام دیا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ’لوہے کا بنایا گنبد‘ کہہ لیتے ہیں۔اس گنبد کی بدولت ہوتا یہ ہے کہ اسرائیل کے شہروں کا رخ کرنے والے ہر میزائل کی نشاندہی کے بعد ممکنہ ہدف رکھتے علاقوں میں سائرن ازخود بول اٹھتے ہیں۔ وہاں مقیم شہری ’پناہ گاہوں‘ میں چلے جائیں تو گنبد ہی سے ایک میزائل اڑتا ہے جو خودکارانہ نظام کی بدولت اسرائیل کی طرف بڑھتے میزائل کو فضا میں روک کر پاش پاش کردیتا ہے۔ہفتے کے روز مگر غزہ کی پٹی سے بیک وقت پانچ ہزار میزائل اسرائیل کی جانب داغ دیے گئے۔ حملہ آور میزائلوں کی تعداد اور بارش کی طرح مسلسل آمدنے ’گنبد‘ کے اوسان خطا کردیے۔ اسرائیل کے دفاع کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بنایا نظام کھوکھلے ڈھانچے کی صورت ڈھیر ہوگیا۔
اسرائیل کے قابل رشک تصور ہوتے جاسوسی نظام کو پچاس سال بعد ایسے ’جھٹکے‘ سے نبردآزما ہونا پڑا ہے۔اس سے قبل1973ء میں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا جب مصر اور شام کی افواج نے زیرک اور خفیہ رکھی منصوبہ بندی کے بعد اسرائیل کو ’یوم کپور‘ کی مذہبی تعطیل کے دوران بوکھلادیا تھا۔ اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل شکست کھاکراپنے خاتمے کی جانب بڑھتا دکھائی دیا تھا۔چند دنوں بعد مگر اسرائیل نے اپنے اتحادیوں سے آئی کمک کی وجہ سے جنگ کاپانسا پلٹ کررکھ دیا۔
اب کی بار اسرائیل کی جابر ریاست کی محدودات دو ممالک کی منظم افواج نے بے نقاب نہیں کی ہیں۔ یہ حیران کن واقعہ ایک تنظیم کے ہاتھوں ہوا ہے جسے گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل تباہ کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہا ہے۔ ہفتے کے دن اس تنظیم نے جس انداز میں اسرائیل کو نشانہ بنایا اس کی تیاری کے لیے یقینا کئی ماہ درکار تھے۔سوال اٹھتا ہے کہ دنیا کی بے شمار آمرانہ حکومتوں کو ’باغیوں‘ پر نگاہ رکھنے اور انھیں مختلف ہتھکنڈے سے کنٹرول کرنے کے حربے سکھانے والااسرائیل اپنے ہی ملک کے خلاف تیار ہوتے منصوبے کا بروقت سراغ کیوں نہیں لگاپایا۔یہ سوال مگر اس وقت عالمی میڈیا میں اٹھایا نہیں جائے گا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وہ تصاویر جن میں اغوا ہوئی چند اسرائیلی خواتین کے ساتھ ’ظالمانہ سلوک‘ ہوتا نظر آرہا ہے حوالے کے لیے مسلسل دکھائی جائیں گی۔ اسرائیل کا آتش انتقام یوں جائز اور واجب ٹھہرادیا جائے گا۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *