[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے خبرگان کونسل کے 12ویں اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے آٹھ سالہ دفاع مقدس کے شہداء کی مغفرت اور درجات کی بلندی اور جانبازان کے لیے صحت و تندرستی کی دعا کی۔
صدر رئیسی نے امام عصر (ع) کے آغاز امامت کی سالگرہ اور پیغمبر اکرم (ص) کے یوم ولادت کی آمد پر ہفتہ وحدت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی۔
جب بھی ہم امام راحل اور رہبر معظم کے رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہوئے، ہم نے ترقی کی منزلیں طے کیں
صدر رئیسی نے تاکید کی کہ ملک کے اہم ترجیحی مسائل جیسے ثقافت، سیاست اور معیشت کے میدانوں میں معاشرے کو رہبر معظم انقلاب “مدظلہ العالی” کے رہنما خطوط اور اہداف تک پہنچانے کے لیے تمام صلاحیتیں اور مادی و معنوی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں اور اس نظام کے عہدیدار ہونے کے ناطے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کی ضروریات اور بلند اہداف کے میدان میں کونسے اقدامات اٹھانے ہیں کیونکہ جہاں امام راحل اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ہدایات پر عمل کیا گیا وہاں ہم ترقی کے اثرات دیکھ رہے ہیں اور جن شعبوں میں ہم دوسرے نظریات کے ساتھ آگے چلے ہیں وہاں ہمیں کامیابی نہیں ملی، امام راحل اور رہبر معظم کے رہنما اصولوں کی پابندی نہ کرنے کے نتیجے میں ہمیں ایسے مسائل درپیش ہیں، جنہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر موجودہ حکومت نے خارجہ پالیسی کے میدان میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو وہ رہبر معظم کے رہنما اصولوں کی پیروی کی بدولت حاصل کی ہے اور اگر کوئی کوتاہیاں ہیں، یہ ہماری طرف سے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے جو نقشہ کھینچا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو ملک ترقی کرے گا اور ملک کی خودمختاری اور عظمت محفوظ رہے گی
انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس مختلف شعبوں میں ان کے خیالات کا ایک نظام موجود ہے جسے ہمیں دن رات کوشش کر کے نافذ کرنا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ امید اور “ہم کر سکتے ہیں” کے شعار سے ہم ناکامیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔
مزاحمتی معیشت کے حوالے سے رہبر معظم کی تیار کردہ پالیسی پر توجہ دی جانی چاہیے
صدر رئیسی نے کہا کہ معیشت کے میدان میں اگر رہبر معظم کی طرف سے بیان کردہ خطوط کی روشنی میں مزاحمتی معیشت پر توجہ دی جاتی تو آج ملک کی موجودہ صورتحال مختلف ہوتی۔
انہوں مزید کہا کہ ثقافت اور سیاست کے میدانوں میں اگر ان کے رہنما اصولوں اور خطوط پر درست طریقے سے عمل ہوتا تو یقیناً ہمارے حالات موجودہ صورت حال سے بہتر ہوتے۔
حجت الاسلام رئیسی نے موجودہ حکومت کے آغاز میں ملک کی اقتصادی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی میدان میں حکومت نے اس وقت کام شروع کیا جب ہم خاص حالات میں تھے اور ہمیں بجٹ خسارہ، مہنگائی اور دیگر مسائل کا سامنا تھا۔ ہمیں ان کی تلافی کرنی تھی جو اللہ کے فضل سے حل ہو گئی۔
ہم نے 2022ء میں مہنگائی کو روکنے کی کوشش کی
رئیسی نے موجودہ حکومت کے آغاز میں ملک کے بجٹ خسارے، مہنگائی اور روزگار کی صورتحال اور موجودہ حالات کا موازنہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ 2021ء سے پہلے کی اقتصادی ترقی کا موازنہ کرنے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ 2022ء میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ایک کوشش کی گئی۔
مہنگائی درحقیقت بجٹ خسارے اور افراط زر میں اضافے کی پیداوار ہے، ہم نے 2022ء میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ اخراجات اور وسائل میں توازن پیدا کرکے یکساں سطح پر لایا جائے تاکہ ہمارے پاس بجٹ کا خسارہ نہ ہو، لہذا مرکز شماریات کے مطابق اس سال بجٹ خسارے میں نہیں رہا۔
موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آتے وقت لیکویڈیٹی گروتھ 42% تھی اور اب یہ 22-26% ہے اور ہمیں امید ہے کہ سال کے آخر تک یہ تعداد 25% پر مستحکم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی، جو کہ بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا نتیجہ ہے، اس موسم بہار میں 2.6 فیصد تھی، ایران کے شماریاتی مرکز کے اعلان کے مطابق۔ پروڈکٹیوٹی آرگنائزیشن نے آج اعلان کیا کہ ہمارے پاس 3.5 فیصد پیداواری نمو ہے، جو کہ اب بھی مطلوبہ ہدف پورا نہیں کر رہا، لیکن یہ ایک اہم نمو ہے۔
روزگار کے حوالے سے ملک کے دو تہائی صوبوں کا کوئی مسئلہ نہیں اور ہم بحرانی صورتحال سے نارمل سطح پر پہنچ چکے ہیں اور کوششیں صرف تعلیم یافتہ افراد کے روزگار کے میدان میں ہونی چاہئیں۔
موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک ہمیں گندم درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
صدر رئیسی نے کہا کہ جس سال موجودہ حکومت کو اقتدار ملا، اس سال کاشتکاروں سے خریدی گئی گندم کی مقدار 4.5 ملین ٹن تھی، لیکن گزشتہ سال 7.5 ملین ٹن گندم خریدی گئی اور امسال 10 ملین ٹن سے زیادہ خریدی گئی تا ہم منصوبہ یہ ہے کہ حکومت کے اختتام پر ہمیں گندم درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمارا گہرا یقین ہے کہ ہم ملک کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں، واضح کیا کہ تمام شعبوں میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور جا ری ہے، ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو امید دلائیں اور رہبر معظم نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم لوگوں کے ایمان اور امید کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں اور ہر وہ چیز جو لوگوں کی مایوسی کا باعث بنتی ہے حکومت کے نقطہ نظر سے دشمنوں کے ساتھ ہم آواز ہونے کے مترادف ہے۔