[]
کراچی: ایک ہندوستانی باپ بیٹے نے پاکستان میں حکام سے کہا ہے کہ وہ اپنے وطن میں “ہندو دہشت گردوں” کا نشانہ بننے سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، اس لئے انہیں پاکستان میں پناہ فراہم کی جائے۔
جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 70 سالہ محمد حسنین اور ان کے فرزند 31 سالہ اسحاق عامر، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نئی دہلی کے رہائشی ہیں، نے پاکستان آنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ وہ متعدد بار ’’ہندو دہشت گردوں‘‘ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے بھارتی ہونے کے دعوے کے تحت اپنے پاسپورٹ بھی دکھائے جس کے مطابق جھارکھنڈ ان کی آبائی ریاست ہے۔
سوشیل میڈیا پر گشت کررہی ویڈیوز میں دونوں باپ بیٹے اپنی کہانی بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے 5 ستمبر کو دبئی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا سفر کیا اور دو دن بعد انہوں نے افغانستان کا ویزا لیا۔
8 ستمبر کو وہ کابل پہنچے اور قندھار کے لئے فلائٹ لے کر ٹیکسی کے ذریعے اسپن بولدک میں پاکستان-افغانستان کی سرحد پر پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایجنٹ کی مدد سے چمن بارڈر سے پاکستان میں غیرقانونی طور پر داخل ہوئے ہیں۔
پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دونوں نے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو رقم ادا کی جس نے 60,000 روپے لے کر انہیں حب پہنچایا جہاں سے وہ رکشے میں کراچی میں داخل ہوئے۔
کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے پولیس سے رابطہ کیا جس پر پولیس نے انہیں ایدھی سینٹر منتقل کر دیا۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں نے تصدیق کی کہ وہ سہراب گوٹھ کے ایدھی سینٹر میں مقیم ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔
جیو نیوز میں چھپی ایک رپوٹ کے مطابق 2014 میں نریندر مودی کی زیر قیادت ہندو قوم پرست جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، بھارت میں مذہبی امتیاز خوفناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔
مذہبی آزادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹس میں امریکی محکمہ خارجہ نے بھی ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف حملوں کا ذکر کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔
انسانی حقوق کے مختلف گروپس بھی کئی مرتبہ مودی حکومت پر مسلم، عیسائی اور سکھ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے امتیازی مذہبی قوم پرستی کو فروغ دینے کا الزام لگا چکے ہیں۔