’مودی حکومت آر ٹی آئی کو ختم کرنا چاہتی‘، کانگریس نے نکتہ بہ نکتہ حقائق کو رکھا سامنے

کانگریس کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی پر پہلے کبھی اتنا حملہ نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے۔ اگر مودی حکومت کی چلی تو ’اطلاعات کا حق‘ جانکاری دینے کی جگہ جانکاری نہ دینے کا حق بن سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>آر ٹی آئی، تصویر سوشل میڈیا</p></div><div class="paragraphs"><p>آر ٹی آئی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

آر ٹی آئی، تصویر سوشل میڈیا

user

’آر ٹی آئی یعنی اطلاعات کا حق قانون خطرے میں ہے۔ مودی حکومت آر ٹی آئی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔‘ مودی حکومت پر یہ سنگین الزام کانگریس نے عائد کیا ہے۔ اس اہم اپوزیشن پارٹی نے صرف الزام عائد نہیں کیا ہے بلکہ نکتہ بہ نکتہ کچھ حقائق سامنے رکھے ہیں، سوالات قائم کر اس کی تشریح کی ہے، اور اس سلسلے میں کچھ ویڈیوز بھی بنا کر پارٹی نے اپنے آفیشیل ’ایکس‘ ہینڈل پر شیئر کی ہیں۔

ایک طویل سوشل میڈیا پوسٹ میں کانگریس نے ’اطلاعات کا حق= اطلاعات نہ دینے کا حق؟‘ عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آر ٹی آئی پر اس سے پہلے کبھی اتنا حملہ نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے۔ اگر مودی حکومت کی چلی تو اطلاعات کا حق جانکاری دینے کی جگہ جانکاری نہ دینے کا حق بن سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اب آپ کو حکومت سے مانگی گئی جانکاری بھی نہ ملے۔‘‘ اس بیان کے بعد نکتہ بہ نکتہ کچھ سوالات قائم کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح آر ٹی آئی مودی حکومت کے نشانے پر ہے۔

پہلا سوال کیا گیا ہے ’’آر ٹی آئی پر حملہ کیسے ہو رہا ہے؟‘‘ اس تعلق سے لکھا گیا ہے کہ ’’ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ (ڈی پی ڈی پی ایکٹ)، 2023 کے تحت آر ٹی آئی کی دفعہ (j)(1)(8) میں ترمیم سے آر ٹی آئی بے معنی اور بے اثر ہو گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد دوسرا سوال ہے ’’مودی نے آر ٹی آئی کو کمزور کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟‘‘ جواب میں لکھا گیا ہے ’’حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ (j)(1)(8) میں ترمیم کیا ہے جو انفرادی جانکاری سے متعلق ہے۔ بدلے ہوئے اصول کے مطابق آر ٹی آئی کے تحت کوئی بھی انفرادی جانکاری نہیں دی جا سکتی۔ یہ رازداری کے پس پشت جانکاری نہ دینے کے علاوہ مزید کچھ نہیں ہے۔‘‘

کانگریس نے تیسرا سوال یہ قائم کیا ہے کہ ’’ڈی پی ڈی پی ایکٹ پر اب ہنگامہ کیوں؟‘‘ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا گیا ہے ’’مودی حکومت نے 2023 میں ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ (ڈی پی ڈی پی ایکٹ) پاس کیا تھا، جب اپوزیشن کے بیشتر اراکین پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا تھا۔ حکومت نے اب تک اصولوں کو نوٹیفائی نہیں کیا تھا، اور تبدیلیوں کو عوامی مشورہ کے لیے رکھا تھا، جس کی مدت کار آج ختم ہو رہی ہے۔ اگر حکومت سب کی فکروں کو نظر انداز کر کے اصولوں کو نوٹیفائی کرتی ہے تو آر ٹی آئی ایک بلاطاقت حق بن جائے گا، جس کا لوگوں کو کسی طرح کا فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘

اس کے بعد کانگریس نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’’آر ٹی آئی کیوں اہم ہے؟‘‘ اس تعلق سے لکھا گیا ہے کہ ’’اطلاعات کا حق ایکٹ انقلابی تھا، اس نے شہریوں کو جانکاری مانگنے کا حق دے کر مضبوط بنایا۔ آر ٹی آئی نے حکمرانی کو شفاف اور حکومت کو زیادہ جوابدہ بھی بنایا۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے کسی بھی جمہوریت میں ہونا چاہیے۔‘‘ کانگریس نے مزید لکھا ہے کہ ’’آر ٹی آئی نے بار بار بڑے پیمانے پر بدعنوانی یا پالیسیوں میں خامیوں کو ظاہر کیا ہے۔ آر ٹی آئی نے اصولوں اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کو ظاہر کیا ہے۔ آر ٹی آئی نے بلاطاقت شہریوں کو طاقتور بنایا ہے۔‘‘

اس پوسٹ میں کانگریس نے ایک انتہائی اہم سوال یہ قائم کیا ہے کہ ’’کیا آر ٹی آئی واقعی میں انفرادی جانکاری کا انکشاف کرتا ہے؟‘‘ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’بالکل نہیں۔ اپنی اصل شکل میں آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کی دفعہ (j)(1)(8) میں واضح طور سے انفرادی جانکاری کو روکنے کا التزام تھا۔ اصول یہ تھا کہ جو بھی جانکاری کسی انفرادی سرگرمی یا مفاد عامہ سے متعلق نہیں ہے، یا جو رازداری کی خلاف ورزی کرے، وہ جانکاری عوام میں نہ آئے۔‘‘ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ ’’آر ٹی آئی کے تحت اب کس طرح کی جانکاری دینے سے منع کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کا جواب ہے ’’ارب پتی وِل فل ڈیفالٹرس کے نام اور ڈیفالٹ رقم؟ ہندوستان سے فرار وِل فُل ڈیفالٹر/ارب پتی بھگوڑے؟ بینکوں نے کن بڑے بڑے سرمایہ داروں کے اور کتنے کے قرض معاف کیے ہیں؟ منریگا کے تحت کتنے لوگوں کو کتنے دن کا کام دیا ہے؟ پی ڈی ایس کے تحت راشن دکانوں سے کس کو اور کتنا اناج تقسیم کیا گیا؟ ووٹر لسٹ میں کس کے نام جوڑے یا ہٹائے گئے؟ عوامی نمائندوں، نوکرشاہوں اور ججوں کی آمدنی اور ملکیت؟ سرکاری منصوبوں کے مستفیدین؟‘‘

مذکورہ بالا سوالات کے علاوہ بھی 2 اہم سوالات کانگریس نے قائم کیے ہیں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ ’’کیا شفافیت اور رازداری میں کوئی تضاد ہے؟‘‘ دوسرا سوال ہے ’’عوام یا رعایا؟‘‘ پہلے سوال کا جواب ہے ’’نہیں۔ ہماری جیسی جمہوریت میں شفافیت اور رازداری کے درمیان تضاد نہیں ہے، بلکہ دونوں ہی بنیادی حقوق کو یقینی کرنے کے لیے ضروری ہیں۔‘‘ دوسرے سوال کا جواب ہے ’’ڈی پی ڈی پی ایکٹ، 2023 کے تحت آر ٹی آئی ایکٹ، 2025 کو کمزور کرنا شفافیت اور جوابدہی دونوں پر براہ راست حملہ ہے، جو اطلاعات کے حق کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ ہم ہندوستان کی عوام ہیں، جنھیں ہر چیز جاننے کا حق ہے، نہ کہ کسی راجہ کی رعایا جن کو صرف بلند اقبال کا نعرہ لگانا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *