رہنماؤں کی شہادت کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن ہونا مقاومت کی فتح کی دلیل ہے، پروفیسر بابائی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ اور حماس کے اعلی رہنماؤں کو شہید کرنے کے بعد اسرائیل نے مقاومت کی کمر توڑنے کا دعوی کیا لیکن 23 فروری کو شہید حسن نصر اللہ کی تاریخی تشییع جنازہ نے دشمن کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ مبصرین کے مطابق شہید حسن نصر اللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی باشکوہ تشییع واضح ثبوت ہے کہ مقاومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہوئی ہے۔

باقر العلوم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تمدن و تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر حجۃ الاسلام والمسلمین حبیب اللہ بابائی نے Khamenei.ir کو انٹرویو میں شہید حسن نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کو مقاومت کہ فتح قرار دیا۔

انہوں نے رہبر انقلاب کے پیغام میں ان شہداء کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ “عزت کے اوج پر” اور “ہر دن مزید سربلندی” کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اس بات کی گہرائي اور اس کے راز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عزت سے متعلق قرآن کی آیات کو سمجھنا ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی کے تمام نظریات اور موقف قرآن سے ماخوذ ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں قرآن کی آیات کا مطالعہ ضروری ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے: وہ (منافق) جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔” (سورۂ نساء، آيت 139) اس طرح کا مفہوم قرآن مجید کی آيتوں میں بار بار دوہرایا گیا ہے کہ خدا اور مومنین کے علاوہ کسی کے پاس عزت نہیں ہے۔ جو بھی عزت، کامیابی اور ایک عظیم سماجی مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے اللہ کے قریب ہونا ہوگا اور اگر وہ اللہ سے تعلق مضبوط کرلے تو یقینی طور پر وہ الہی عزت اسے حاصل ہوگی۔

فتح اور شکست کے معیار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے اور مغرب کے درمیان زندگی اور موت کے معیار اسی طرح  فتح اور شکست اور فتح کے معیار کے بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان ظلم کے خلاف مزاحمت کرے اور شہید ہوجائے مغربی دنیا اس کو شکست جبکہ ہم فتح سمجھتے ہیں۔ جو کسی بھی وجہ سے ظلم کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور اس کے سامنے جھک جاتا ہے تو مغربی دنیا کے مطابق ایسا انسان کامیاب ہے کیونکہ اس کے ظاہر سے یہی پتہ چلتا ہے کہ امریکی خواہشات کے سامنے جھک جانے کی وجہ سے اس کے معاشی حالات اچھے ہیں، اس پر پابندی نہیں ہے۔ یہ دنیوی اور مادّی سوچ ہے کیونکہ اس طرز فکر میں سعادت، امید اور خوش بختی کو صرف اور صرف مادی چیزوں میں تلاش کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات میں عزت کی کسوٹی اور باوقار ہونے کا معیار انسانی معیارات پر مبنی ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام کے فرمودات میں ذلت کے ساتھ زندگي گزارنا مرنے کے مترادف ہے اور حیات، عزت کے ساتھ مرنے میں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زندگي اور موت کا اصل فلسفہ یہ ہے۔ مغربی دنیا موت کو شکست مانتی ہے۔ اس کے برعکس مقاومت موت کو شکست یا زندگي کو فتح نہیں سمجھتی ہے بلکہ ذلت کے ساتھ زندگی کو موت اور شہادت کو فتح سمجھتی ہے۔ مغربی دنیا کے لیے اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ یہی خصوصیت مغربی دنیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب نے اپنے پیغام میں کہا کہ شہید نصر اللہ کی روح اور راہ پہلے سے زیادہ سرفراز ہو کر لوگوں کی رہنمائي کرتی رہے گي۔ اس جملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں موجودہ حالات پر نظر ڈالنی ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کمانڈروں کی شہادت کے بعد مقاومت کس حالت میں ہیں۔ وہ رو بزوال ہے یا عروج کی طرف جا رہی ہے؟ رہنماؤں کی شہادت کے بعد بھی مقاومت کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ آج جو بچے پناہ گزیں کیمپوں میں ہیں، وہی مزاحمت کے مستقبل کے رہنما اور کمانڈر ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے مغربی دنیا تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

شہیدوں کی حیات ابدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 169 میں خداوند عالم فرماتا ہے: “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں۔” مطلب یہ کہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اسے محسوس نہیں کر پارہے ہو۔ اس آيت میں کہا گيا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کے یہاں روزی پارہے ہیں، سورۂ بقرہ کی آيت نمبر 154 میں “اللہ کے یہاں” نہیں کہا گيا ہے بلکہ فرمایا ہے: “بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمھیں (ان کی زندگی کی حقیقت کا) شعور (سمجھ) نہیں ہے۔” مطلب یہ کہ وہ حقیقت میں زندہ ہیں لیکن تم سمجھ نہیں پاتے۔ شہید کے زندہ ہونے سے متعلق یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے، یعنی شہید کے بارے میں مقاومت کی سوچ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے۔ شہید کی زندگی آخرت میں قابل رشک ہونے کے ساتھ اس دنیا میں بھی وہ زندہ ہے۔ شہیدوں کا خون بہت عظیم ہے۔ یہ خون کبھی سید الشہداء کے خون کی شکل میں، کبھی امیر المومنین کے خون کی شکل میں دکھائي دیتا ہے۔ کبھی ان کے پیروکاروں کے خون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ چونکہ یہ خون، بہت عظیم ہے اس لیے اس کے اثر کا دائرہ بھی بہت بڑا اور پائيدار ہے۔ شہیدوں کا جتنا خون بہایا جائے گا، سماج پر اس کا اثر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی مثال آپ امام حسین علیہ السلام کا خون ہے۔ جب امام حسین علیہ السلام جیسا عظیم انسان شہید ہوا تو ناامیدی اور مایوسی بھی بہت زیادہ پھیل جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ خون ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ درحقیقت نور خدا ہے جو امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت میں پایا جاتا ہے اور اسی طرح ان کے ان پیروکاروں کی شخصیت میں بھی پایا جاتا ہے جو اس راہ میں شہید ہوتے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *