اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم 17 ماہ بعد جیل سے رہا

لکھنؤ:سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم 17 ماہ بعد جیل سے رہا ہو گئے ہیں، جبکہ خود اعظم خان اب بھی قید میں ہیں۔ باپ بیٹے دونوں کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد ہے، اور اعظم خان کے حامیوں کو شکایت ہے کہ اکھلیش یادو نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، اعظم خان چندرشیکھر آزاد کے ساتھ مل کر ایک نیا سیاسی محاذ بنانے پر غور کر رہے ہیں، جس سے انہیں قانونی راحت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مغربی اتر پردیش کی سیاست میں بڑا الٹ پھیر ممکن ہے، کیونکہ 2027 میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

منگل کی صبح 11:40 بجے عبداللہ اعظم جیل سے باہر آئے، لیکن ان کے حامی صبح سے ہی ہردوئی جیل کے باہر جمع ہو گئے تھے۔ حامیوں نے “جیل کے تالا ٹوٹ گیا، عبداللہ بھائی چھوٹ گیا” جیسے نعرے لگائے۔ عبداللہ پائجامہ، کرتا اور بلیک صدری میں نظر آئے، تاہم انہوں نے میڈیا سے بات نہیں کی۔ ان کے ساتھ اعظم خان کے قریبی رہنما یوسف ملک بھی موجود تھے۔

اطلاعات کے مطابق، اعظم خان اور ان کے خاندان کا سماج وادی پارٹی سے ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ نئی سیاسی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں۔ 19 سال پرانے کیس میں اعظم خان کے خلاف SIT کی جانچ بھی شروع ہو چکی ہے، جس میں ان پر زبردستی پیسے لینے کا الزام ہے، جبکہ عبداللہ اعظم کو حال ہی میں ضمانت ملی ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام واقعات اتفاق نہیں، بلکہ ایک سیاسی چال ہے۔

ایک وقت تھا جب اعظم خان کا سیاسی قد اتنا بلند تھا کہ انہیں “منی سی ایم” کہا جاتا تھا۔ لیکن یوگی حکومت کے آتے ہی ان پر بکری چوری، زمین قبضے، اور دیگر سنگین الزامات لگائے گئے۔

 آج وہ نہ الیکشن لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے بیٹے عبداللہ۔ ان کے مخالفین، جیسے محب اللہ ندوی، آشو ملک، اور کمال اختر، سماج وادی پارٹی میں اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں، جبکہ اعظم خان اور ان کے حامی حاشیے پر جا چکے ہیں۔

اعظم خان کے حامیوں نے کھل کر اکھلیش یادو کے خلاف ناراضی ظاہر کی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں اعظم خان کے ایک خط نے “انڈیا اتحاد” کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ رامپور کے معاملے پر سب خاموش رہے، لیکن سنبھل کے کیس پر پارلیمنٹ سے سڑک تک احتجاج ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اعظم خان اور چندرشیکھر آزاد کا سیاسی اتحاد بننے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔

چندرشیکھر آزاد جو آزاد سماج پارٹی کے رہنما اور موجودہ ایم پی ہیں، اعظم خان اور ان کے بیٹے عبداللہ کو اپنا “بھائی اور سرپرست” مانتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے جیل میں اعظم اور عبداللہ سے ملاقات بھی کی تھی۔

 اگر اعظم اور چندرشیکھر متحد ہوتے ہیں، تو وہ دلت اور مسلم ووٹ کی طاقت سے مغربی یوپی میں ایک مضبوط سیاسی محاذ بنا سکتے ہیں، جو سماج وادی پارٹی کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

اکھلیش یادو اور چندرشیکھر کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ اعظم خان کے ساتھ جانے سے اکھلیش کو نقصان بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کچھ لیڈران کا ماننا ہے کہ اعظم خان کی موجودگی سے مسلم ووٹ تو مل جاتے ہیں، لیکن ہندو ووٹ کٹ جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف، اعظم خان کا پارٹی سے الگ ہونا بھی سماج وادی پارٹی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ 2009 کے انتخابات میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔

اب سب کی نظریں اعظم خان پر ہیں کہ آیا وہ چندرشیکھر آزاد کے ساتھ نیا محاذ بناتے ہیں یا سماج وادی پارٹی میں ہی رہ کر اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ نیا سیاسی راستہ اپناتے ہیں، تو 2027 کے اتر پردیش انتخابات مزید دلچسپ ہو سکتے ہیں۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *