جامعہ ملیہ اسلامیہ تنازعہ میں گھِر گئی، نئے وائس چانسلر پریونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے کا الزام

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ یہ الزامات عائد کئے جانے کے بعد ایک تنازعہ میں گھِر گئی ہے کہ اِس کے نئے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف، یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو منظم طور پر ختم کررہے ہیں۔ یہ تنازعہ یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی داخلہ پالیسی میں حالیہ تبدیلیوں سے پیدا ہوا۔

ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اس میں اقلیتی امیدواروں پر غیراقلیتی طلبہ کو غیرمتناسب طور پر جانب داری برتی جارہی ہے۔ پروفیسر مظہر آصف جنہوں نے اکتوبر 2024 میں عہدہ کا جائزہ حاصل کیا ہے، اُن پر الزام ہے کہ وہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آرایس ایس) اور اس کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کی طرف مائل ہیں۔

طلبہ اور کارکنوں کا الزام ہے کہ ریزرویشن پالیسی میں تبدیلیاں ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہیں تاکہ ادارہ کی اقلیتی شناخت کو تحلیل کیا جاسکے۔ یہ ادارہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ 12 نومبر 2024 کو یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل اور اگزیکیٹیو کونسل نے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے ذریعہ پی ایچ ڈی داخلوں کے لئے تحفظات کی پالیسی میں ترمیم کی گئی تھی۔

قبل ازیں یہ ہوتا تھا کہ اگر محفوظ زمروں کے تحت موزوں امیدوار دستیاب نہ ہوں تو سیٹیں خالی رہ جاتی تھیں تاہم اب ترمیم شدہ پالیسی کے تحت اِن نشستوں کو غیراقلیتی امیدواروں سے پُر کیا جائے گا۔ اِس اقدام نے بڑے پیمانہ پر برہمی پھیلادی ہے۔ دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ نئی پالیسی نے داخلوں میں توازن کو قابل لحاظ حد تک بگاڑ دیا ہے۔

مثال کے طور پر اے جے کے ماسک کمیونیکیشن سنٹر میں اقلیتی طالب علم کو 4 کے منجملہ صرف ایک نشست مختص کی گئی جبکہ باقی 3 نشستیں غیراقلیتی امیدواروں کو دی گئیں۔ اسی طرح سنٹر فار کلچر اینڈ میڈیا گورننس میں 7 کے منجملہ صرف ایک نشست اقلیتی طالب علم کے لئے الاٹ کی گئی جبکہ باقی 6 غیراقلیتی امیدواروں کو دی گئیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *