حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعےۃ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ د ن و رات، ہفتہ و ماہ اور سال اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ رب العزت نے ہی ان میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے، ان ہی عظمت و فضیلت والی راتوں میں ایک رات شعبان المعظم کی پندرہویں شب ہے جو برآت سے موسوم ہے جو دراصل خطاؤں اور گناہوں سے توبہ کرکے بری ہونے کی رات ہے۔
قرآن مجید میں ۲۵/ ویں پارہ سورہ دخان کی ابتدائی آیتوں میں ارشاد باری ہے اس کا ترجمہ یہ ہے قسم ہے اس کھلے ہوئے واضح کتاب کی ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں اتارا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو آگاہ و متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے یقیناًہم ایک رسول بھیجنے والے تھے۔
اس آیت کے بارے میں حضرت عکرمہ اور مفسرین حضرات کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس سے شب برآ ت مراد ہے جیسا کہ فیہا یفرق کل امر حکیم سے واضح ہوتا ہے۔ احادیث و آثار میں بھی شب برآ ت کی عظمت، برکت اور رحمت بہت ہی بلیغ انداز میں بیان ہوئی ہے۔حضرت معاذ ابن جبلؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی ساری ہی مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات میں عبادت کرو اور اس کے بعد والے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اس رات کو اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمان دنیا پر جلوہ خاص فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں، کیا کوئی مبتلائے مصیبت ہے کہ اسے عافیت دوں، کیا کوئی ایسا ویسا ہے اور یہ آواز صبح تک آتی رہتی ہے۔
پندرہویں شعبان کی اسی مبارک شب میں بنی آدم کا ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے، لکھ دیا جاتا ہے اور بنی آدم کو ہر وہ شخص جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے اور اس رات میں بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں۔امی جان حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لیے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں۔
اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوؤں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مجھے خوشی ہوئی۔
اس وقت حالت سجدہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا مانگ رہے تھے۔امت مسلمہ کو چاہئے کہ اس مبارک رات میں بے جا فضولیات و دیگر بدعات و رسومات سے احتراز کرتے ہوئے نفلی نماز، ذکر وتلاوت، توبہ و استغفار اور دعا مناجات میں وقت گزارے کیونکہ بس یہی اعمال و افعال اور معمولات صحابہ، تابعین و اسلاف سے ثابت ہیں۔اللہ تعالی ہم کواس رات کی قدر دانی کی توقیق عطافرمائیں۔اور اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازیں۔