حیدرآباد: اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (SIO) تلنگانہ نے مالی سال 2025-26 کے ریاستی بجٹ کے لیے اپنی تفصیلی سفارشات پر مبنی ایک کتابچہ جاری کیا ہے، جس میں خاص طور پر تعلیم اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی گئی ہے۔
یہ کتابچہ تعلیمی شعبے میں موجود اہم مسائل جیسے ناکافی انفراسٹرکچر، اساتذہ کی کمی، اور طلبہ کی تعلیمی کارکردگی میں کمی کو اجاگر کرتا ہے، جبکہ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔
رپورٹ میں تعلیم کے شعبے میں ہونے والی مالی کمی اور اس کے طلبہ کی کارکردگی پر پڑنے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ASER 2024 کے مطابق، صرف 18% طلبہ (کلاس III-V) کلاس II کی سطح کی تحریر پڑھ سکتے ہیں، جبکہ صرف 49% طلبہ بنیادی تفریق (subtraction) کے سوالات حل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، نصاب کی قدامت طلبہ کو روزگار کے مواقع سے دور کر رہی ہے۔ ان مسائل کے پیش نظر، ایس آئی او تلنگانہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کم از کم 20% بجٹ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کرے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور نئی نسل کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔
رپورٹ میں نوجوانوں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ تلنگانہ میں بے روزگاری کی شرح 16.6% ہے، جو قومی اوسط (10.2%) سے کہیں زیادہ ہے۔ ایس آئی او نے نوجوانوں کے لیے مہارت کی ترقی (Skill Development)، ذہنی صحت کی سہولیات، اور کاروباری مواقع فراہم کرنے پر زور دیا ہے تاکہ انہیں بہتر روزگار کے مواقع مل سکیں۔ مزید برآں، ذہنی صحت سے متعلق فریم ورک کو مضبوط بنانے کی بھی سفارش کی گئی ہے، جو ایک عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
COVID-19 وبا کے دوران ڈیجیٹل سہولیات تک محدود رسائی ایک بڑا چیلنج بنی، جہاں 32% سرکاری اسکولوں کے طلبہ آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ ایس آئی او نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے، انٹرنیٹ سروسز پر سبسڈی دے، اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیمی ماڈیول متعارف کرائے تاکہ تمام طلبہ کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
حکومتی اسکولوں کے بنیادی مسائل پر بات کرتے ہوئے کتابچے میں بتایا گیا کہ 26% اسکولوں میں فرنیچر نہیں ہے اور صرف 53% اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ بیت الخلا موجود ہیں۔ ایس آئی او نے “انفراسٹرکچر ریویول مشن” کے قیام کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے اور صنفی مساوات کو فروغ دیا جا سکے۔
ایس آئی او نے ٹیوشن فیس ری ایمبرسمنٹ اسکیم میں بدانتظامی کو بھی اجاگر کیا۔ 2024-25 کے بجٹ میں ₹300 کروڑ مختص کیے گئے تھے، لیکن صرف ₹41.86 کروڑ خرچ کیے گئے، جبکہ 1.2 لاکھ سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں۔ تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسکالرشپ کی تقسیم کا ایک شفاف اور وقت پر مکمل ہونے والا نظام بنایا جائے تاکہ طلبہ، بالخصوص اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے طلبہ، مالی رکاوٹوں کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ ہوں۔
ایس آئی او نے تلنگانہ کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی شدید کمی کی نشاندہی کی، جہاں 73% تدریسی عہدے خالی ہیں۔ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کا معیار متاثر ہو رہا ہے۔ تنظیم نے فوری طور پر تدریسی عملے کی بھرتی کے لیے خصوصی مہم چلانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔
ایس آئی او تلنگانہ کے صدر فراز احمد نے کہا، “تعلیم کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور بجٹ کا کم از کم 20% حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنا محض ایک سفارش نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ یہ سرمایہ کاری ایک باصلاحیت، ہنر مند اور باشعور نسل کی تیاری میں معاون ثابت ہوگی، جو تلنگانہ کے مستقبل کو سنوارے گی۔”
ایس آئی او تلنگانہ کے سیکریٹری محمد حماد الدین نے کہا، “ہمارے مطالبات تلنگانہ بھر کے طلبہ اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ حکومت کو بجٹ میں ایسے فیصلے لینے چاہئیں جو تعلیمی معیار، سہولتوں کی دستیابی اور مساوات کے فروغ میں معاون ثابت ہوں، تاکہ ایک روشن اور خوشحال مستقبل کی راہ ہموار ہو سکے۔”
یہ کتابچہ ایس آئی او تلنگانہ کی جانب سے پالیسی سازوں کے ساتھ تعمیری مکالمے کی ایک کوشش ہے، جس میں ڈیٹا پر مبنی، جامع اور دیرپا بجٹ تجاویز پیش کی گئی ہیں تاکہ تعلیم اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی جا سکے۔ تنظیم کا مقصد ایک زیادہ باشعور، بااختیار اور مساوی معاشرے کا قیام ہے، جہاں ہر طالبعلم کو تعلیم کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔