مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک – آذر مہدوان: موثر مذاکرات کا مسئلہ مغربی ممالک اور امریکہ کے لیے ایک غیر اہم اصول سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ مختلف ممالک کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کرنے کے باوجود مغرب کبھی اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہا۔!
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد، تہران اور واشنگٹن کے درمیان ممکنہ مذاکرات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا بازار پھر سے گرم ہو گیا ہے۔
اس سے پہلے بالواسطہ طور پر کیے گئے مذاکرات “جامع مشترکہ معاہدے” پر منتج ہوئے تھے،لیکن ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دور میں، ایران کے تعمیری تعاون کے باوجود یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی اور “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کے تحت مزید پابندیاں عائد کر دیں۔
مہر نیوز کے نامہ نگار نے امریکہ اور مغربی ممالک کے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کے مقصد کو سمجھنے کے لئے انقرہ یونیورسٹی کے پروفیسر “حسن اونال” سے گفتگو کی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
مہر نیوز: بین الاقوامی مسائل کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا یقیناً ایک درست اور منطقی عمل ہے لیکن صرف اس صورت میں جب دوسرا فریق مذاکرات میں دیانت دار ہو۔ مغرب کے ساتھ بعض ممالک کے مذاکرات کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا، معمر قذافی کے دور میں لیبیا کے مذاکرات اس کی ایک مثال ہیں۔ مغرب بالخصوص نئے امریکی صدر کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
پروفیسر حسن اونال: مغربی ممالک بالخصوص امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کے ساتھ مذاکرات میں دیانتداری سے کام نہیں لیا، جنہیں وہ ’’برائی کا محور‘‘ قرار دیتا ہے۔ ترکی کے معاملے میں بھی مغربی دنیا دیانت داری سے بہت دور کی پالیسی اپناتی ہے اور ہم نے کئی بار مغرب کی طرف سے چیلنجز کے حل کے عمل میں خلاف ورزی کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس وجہ سے، ترکی مغرب کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایران کے معاملے کے بارے میں، میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مؤثر اور ایماندارانہ مذاکرات کریں گے۔ جن ممالک کو امریکہ “برائی کا محور” قرار دیتا ہے، ان میں سے کوئی بھی مذاکرات کے ذریعے خود کو سیاسی اور اقتصادی دباؤ سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ عراق، شام اور لیبیا ان ممالک کی مثالیں ہیں۔
مہر نیوز: مغرب اور امریکہ کے ساتھ ایران کے مذاکرات کے دوران ان کا مذاکرات کے بنیادی اصول کی طرف توجہ نہ دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ مغرب بظاہر مذاکرات کا حامی دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں ایرانی عوام کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپناتا ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟
مغربی دنیا بالخصوص امریکہ نے ہمیشہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں دیانتداری سے بہت دور رویہ اختیار کیا ہے۔ ہم ایرانی قوم کے خلاف ظالمانہ امریکی پابندیوں پر حیران نہیں ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح شام میں جہادی گروپ مسلح تھے اور 14 سال تک دمشق کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کیں۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ ایرانی عوام کے خلاف اپنی پابندیاں جاری رکھے گا۔ نئی امریکی حکومت کے نقطہ نظر اور اسلامی جمہوریہ کی انقلابی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ آس لگانا بے سود ہے کہ مغرب تہران کے حوالے سے اپنی پالیسی میں پسپائی اختیار کرے گا، کیونکہ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کی حمایت کا عنصر امریکی پالیسی پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔
مہر نیوز: ایران اور دیگر ممالک کے خلاف امریکہ اور مغرب کے سیاسی دباؤ سے نمٹنے کا بہترین راہ حل کیا ہے؟
میری رائے میں علاقائی تعاون ہی بہترین حل ہے۔ تاہم کثیر قطبی دنیا پر توجہ مرکوز کرنا بھی مغرب کے خلاف بہترین سیاسی اقدام ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ترکی کے ساتھ ایران کا تعاون بھی موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ترکی کے اندر ایسے گروہ موجود ہیں جو ایران کے ساتھ تعاون کے بارے میں مثبت نظریہ نہیں رکھتے۔ اگر یہ گروپ ترکی کی پالیسی سازی میں موئثر ثابت ہوا تو یہ انقرہ کو تہران کے معاملے میں مغرب کے ساتھ تعاون کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرچہ مجھے امید ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔