[]
شام کا مستقبل اس وقت مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جب سے مزاحمتی گروہوں نے بشارالاسد حکومت کا تختہ پلٹا اور ملک کو اپنے کنٹرول میں لیا، اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شامی حکومت کے بڑے پیمانے پر خاتمے کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی نمائندگی اس کی افواج کرتی ہے، جسے وہ شامی عرب فوج کہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے مخالف گروہوں کی قیادت حیات تحریر الشام (سابقہ النصرہ فرنٹ) کر رہی ہے جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔
اس پورے منظر نامے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ دھڑے اسد کی افواج حتیٰ کہ اس کے روسی اتحادی کی طرف سے کسی بھی طرح کی مزاحمت کے بغیر کیسے اتنی تیزی سے آگے بڑھے اور کیسے ایک کے بعد ایک شہر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ شام میں جس منظر نامے کا سامنا ہم کر رہے ہیں اس کا تعلق حکومت مخالف دھڑوں کی طاقت یا اسدی قوتوں کی کمزوری سے نہیں ہے، بلکہ ترکی اور روس کے درمیان امریکی اسرائیلی چھتری کے تحت ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ہے۔