[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:
اپنی 76 سالہ زندگی میں مغربی حمایت کے بل بوتے پر وحشیانہ جرائم کا ارتکاب اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والی جعلی صیہونی رجیم نے شام میں اسلامی جمہوریہ کے سفارتی مراکز پر حملے کرکے اپنے مجرمانہ ٹریک ریکارڈ اور سیار کارناموں میں مزید اضافہ کیا ہے۔
پیر کی شام دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے پر صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے حملہ کرکے قونصل خانے کی عمارت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ ایک جارحانہ حملہ جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کئی اعلی عہدیدار اور فوجی مشیر شہید ہوئے۔
امریکہ کی دمشق واقعے سے صیہونی حکومت کے ساتھ فرار کی کوشش
صیہونیوں کے اس قاتلانہ حملے اور وحشت ناک جارحیت کے ردعمل میں تہران میں سوئس سفیر کو طلب کیا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے اپنے ایکس اکاونٹ پر اس کے بارے میں لکھا: اسرائیلی حکومت کے دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے کی عمارت پر دہشت گردانہ حملےکے نتیجے میں متعدد فوجی مشیروں کی شہادت پر آج صبح سوئس سفارت خانے کے اہلکار کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے اسرائیلی حکومت کے اس دہشت گردانہ حملے کی تفصیلات کی وضاحت کے ساتھ امریکی حکومت کی ذمہ داری پر زور دیا گیا ہے۔”
ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ کو اس جارحیت کا ذمہ دار قرار دیا ہے جب کہ وائٹ ہاؤس نے اپنے رسمی موقف میں اس اسٹریٹجک غلطی کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے امریکی ویب سائٹ “Axios” کو بتایا: “امریکہ کا [اسرائیلی] حملے میں کوئی دخل نہیں تھا اور ہمیں اس کے بارے میں پہلے سے علم نہیں تھا۔”
امریکی قومی سلامتی کونسل کے اس اہلکار کے مطابق دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے قونصلر سیکشن کی عمارت پر صیہونی حکومت کے حملے میں وائٹ ہاؤس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور تل ابیب نے اس جارحانہ کارروائی کی تفصیلات فراہم کیے بغیر حملہ شروع ہونے سے چند منٹ پہلے آگاہ کیا۔
صیہونی حکومت کی ایران میں تخریب کاری اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے لے کر غزہ کی موجودہ نسل کشی تک کے سفاک اقدامات اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ جعلی رجیم در اصل خطے میں امریکہ کی پراکسی فوج ہے۔ لہذا ایرانی اور علاقائی حکام کا خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس کو صیہونی حکومت کے کسی بھی غیر روایتی اور جنگی روئے پر جوابدہ ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے سیاسی مشیر ایڈمرل علی شمخانی نے بھی امیر عبداللہیان سے ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا: “صیہونی حکومت نے خطے میں امریکہ کی پراکسی فوج کے طور پر دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرکے حماقت کا ارتکاب کیا ہے جس کی قیمت اسے چکانی ہوگی۔ اس جرم اور اس کے نتائج کے لیے امریکہ کی براہ راست ذمہ داری پر اس بات سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ واشنگٹن اسرائیل کے اس اقدام کو انجام دینے کے ارادے سے واقف ہے یا نہیں۔
بلاشبہ، شام میں ایرانی قونصلر عمارت پر حملے کے نتائج سے امریکہ کے خوف کے علاوہ، واشنگٹن دیگر بین الاقوامی کھلاڑیوں کی طرف سے الزامات عائد کئے جانے سے پریشان ہے۔ روس، چین، سعودی عرب، شام، متحدہ عرب امارات، قطر، پاکستان، عمان، اردن، عراق، کیوبا، وینزویلا وغیرہ جیسے ممالک نے اب تک اس غیر روایتی اقدام کی سختی سے مذمت کی ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ایرانی قونصل خانے پر حملہ بین الاقوامی قوانین کے نقطہ نظر سے
سفارت خانوں اور قونصل خانوں سمیت سفارتی اور قونصلر مراکز پر حملہ بین الاقوامی پروٹوکول اور ان مقامات کے استثنیٰ کی خلاف ورزی کی واضح مثال ہے جسے کوئی بھی ملک یا ادارہ قبول نہیں کرسکتا۔
درحقیقت قونصل خانوں اور سفارت خانوں پر حملے بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ پیدا کرنے کے باعث عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سفارتی مقامات پر حملے کو ایک غیر قانونی اور ناقابل قبول فعل تصور کیا جاتا ہے اور عالمی برادری کی جانب سے ہمیشہ اس کی مذمت کی جاتی ہے۔
لہذا دنیا کی درجنوں تنظیموں اور ممالک نے اعلانات اور بیانات شائع کرکے صیہونی حکومت کے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
سفارتی تعلقات کے 1961 کے کنونشن، قونصلر تعلقات سے متعلق 1963 کے ویانا کنونشن اور بین الاقوامی طور پر محفوظ افراد کے خلاف جرائم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن میں اس طرح کی خلاف ورزیوں کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے۔
سفارتی تعلقات پر 1961 کا ویانا کنونشن واضح طور پر سفارت خانوں، قونصل خانوں، سفارت کاروں اور سفارتی اور قونصلر مشن کے ملازمین کے احترام کو بیان کرتا ہے۔ نیز، قونصلر تعلقات اور اس کے عملے پر 1963 کا ویانا کنونشن بھی اسی طرح کے احترم کو بیان کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، قونصلر تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن کے سلسلے میں، 1963 کے کنونشن میں سفارت کاروں اور ان کے متعلقہ مقامات کے لیے بین الاقوامی قانون میں تسلیم شدہ استثنیٰ کی فہرست درج ذیل ہے: سفارتی مقامات پر حملے سے استثنیٰ؛ آرکائیوز اور ڈپلومیٹک آرکائیوز کا استثنیٰ؛ نقل و حرکت اور مواصلات کی آزادی وغیرہ۔
آرٹیکل 31 کے تحت “جارحیت سے قونصلر مقامات کا استثنیٰ” کے عنوان سے، جو شام میں ایرانی قونصل خانے پر صیہونی حکومت کے حملے کے مسئلے سے متعلق ہے، کہا گیا ہے:
1- قونصلر مقامات کو اس آرٹیکل میں بتائی گئی حد تک استثنیٰ حاصل ہے۔
2- قبول کئے گئے حکام قونصلر سیکشن کے اس حصے میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں جو خصوصی طور پر قونصلر پوسٹ کے امور کے انعقاد کے لئے استعمال ہوتا ہے سوائے قونصلر پوسٹ کے سربراہ یا اس کے ذریعے نامزد کردہ شخص یا اس کے سفارتی مشن کے سربراہ کی رضامندی سے، تاہم، آگ لگنے یا دیگر ناخوشگوار واقعات کی صورت میں جن کے لیے فوری حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ قونصلر پوسٹ کے سربراہ کی رضامندی حاصل کی گئی تھی۔
3- اس آرٹیکل کے پیراگراف 2 کی دفعات کے تحت، اجازت دینے والی حکومت کا خصوصی فرض ہے کہ وہ تمام ضروری اقدامات کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قونصلر کے احاطے کی خلاف ورزی اور ان کے امن و امان کو نقصان نہ پہنچے۔
4- قونصلر سیکشن اور اس کا فرنیچر، نیز قونصلر پوسٹ کی جائیداد اور اس کی گاڑیاں، قومی دفاع یا عوامی فائدے کے مقصد سے کسی بھی ذرائع سے محفوظ ہوں گی۔ جب بھی ان مقاصد کے لیے ضبطی ضروری ہوگی، قونصلر فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے بچنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے اور بھیجنے والی حکومت کو فوری اور مناسب معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا دفعات سے سفارتی مقامات کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے، اس لیے قونصل خانے اور سفارت خانے متعلقہ ملک کی سرزمین سمجھے جاتے ہیں اور اس پر حملہ کرنا اس ملک پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
سفارت کاروں کی مالی اور جان کی حفاظت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ دنیا کے ممالک نے 1961 کے ویانا کنونشن کی شقوں کو کافی نہیں سمجھا، جس میں صرف “مستقل سفارتی مشنز” پر توجہ دی گئی تھی۔ خصوصی سیاسی مشنز کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھتے ہوئے 8 دسمبر 1969 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران انہوں نے “خصوصی مشن کنونشن” کی توثیق کی جس کی ایران نے بھی توثیق چھے سال بعد یعنی 5 جون 1975کو اس کنونشن کا رکن بننے کے بعد کی۔
دسمبر 2019 میں شہید قاسم سلیمانی کا قتل بھی امریکہ کی طرف سے اس کنونشن کی صریح خلاف ورزی تھی۔ یہ قتل امریکی فوجی دستوں نے اس وقت کیا جب وہ ایک “خصوصی مشن” پر بغداد کے سرکاری اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ذریعے ملک میں داخل ہوئے تھے اور وہ عراقی حکومت کے سرکاری مہمان تھے اور اس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے کی حیثیت عراقی وزیر اعظم سے بطور خاص ملاقات کرنی تھی۔
امریکہ نے اس وقت “خصوصی مشن کنونشن” کی خلاف ورزی کے ساتھ عراق کی خودمختاری کو بھی نظر انداز کیا تھا، لیکن اب وہ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شام کی خود مختاری اور 1961 اور 1963 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزیوں سے خود کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ملکوں کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی بار بار خلاف ورزیاں اور صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے واشنگٹن کی حمایت نے انہیں تاریخ کے باطل محاذ پر ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔