[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ناصر کنعانی نے اپنی پریس کانفرنس میں خلیج فارس تعاون کونسل (PGCC) کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جاری کردہ بیان کے جواب میں بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر تینوں جزائر پر ایران کی خودمختاری کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ گلف کونسل اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
منگل کو او آئی سی کا اجلاس ہوگا
انہوں نے کہا کہ ہم کل جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے صدر دفتر میں فلسطین کے حوالے سے ایک اہم اور غیر معمولی اجلاس کا مشاہدہ کریں گے۔
کنعانی نے مزید کہا کہ او آئی سی کے قیام کا مقصد مسئلہ فلسطین کی پیروی تھا۔ توقع کی جاتی تھی کہ او آئی سی موثر کارروائی کرے گی تاکہ غزہ میں پچھلے پانچ ماہ سے جاری صیہونی حکومت کے جرائم میں کمی آ سکے۔ لیکن او آئی سی نے فلسطین کی حمایت میں اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کیا جیسا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلی ترجیح غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہے، دوسری انسانی امداد بھیجنے کے لیے راستوں کو دوبارہ کھولنا ہے، اور تیسری غزہ کے لوگوں کی جبری نقل مکانی کو روکنا ہے۔ ہم اس سلسلے میں کئے جانے والے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
آرش آئل فیلڈ پر موقف
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے خلیج فارس کی بعض ریاستوں کی جانب سے آرش گیس فیلڈ کے استعمال کے حق کے بارے میں اٹھائے گئے دعوے کے بارے میں کہا کہ ایران نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بارہا اس مسئلے پر اپنے بنیادی موقف کا اظہار کیا ہے۔
ناصر کنعانی نے چابہار میں طالبان کی سرمایہ کاری کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی نگراں حکومت کے ساتھ ہمارے تعاون میں واضح طور پر اہداف اور اصول بیان کیے گئے ہیں۔ افغانستان میں استحکام خطے کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحدی سکیورٹی کو مضبوط بنانا ایران کا بنیادی ہدف ہے۔
جے سی پی او اے مذاکرات کی بحالی
ناصر کنعانی نے سن 2015 کے جوہری معاہدے کے احیاء اور ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: امریکی حکومت اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل گئی اور اس کی ذمہ داری امریکہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ JCPOA کے بارے میں ایران کا بنیادی ہدف ظالمانہ پابندیوں کو ہٹانا اور ایرانی قوم کے حقوق کو محفوظ بنانا ہے۔ سفارتی ذرائع اب بھی ثالثوں کے ذریعے متحرک ہیں۔
جے سی پی او اے پر 2015 میں ایران اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان دستخط ہوئے تھے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں اس معاہدے سے غیر قانونی طور پر دستبردار ہوئے تھے جب کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اشارہ دیا ہے کہ وہ معاہدے کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جب کہ روس، برطانیہ، جرمنی، چین، امریکا اور فرانس اپریل 2021 سے ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جے سی پی او اے کو بچانے کے لیے بات چیت اپریل 2021 میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہوئی تھی، جس کا مقصد اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے اور ایران مخالف پابندیوں کو ہٹانے میں واشنگٹن کی سنجیدگی کا جائزہ لینا تھا۔
یہ مذاکرات اگست سے تعطل کا شکار ہیں کیونکہ واشنگٹن کی جانب سے سابق امریکی انتظامیہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر عائد تمام پابندیوں کو ہٹانے کے اپنے سخت موقف پر اصرار کیا گیا تھا۔ ایران کا موقف ہے کہ دوسرے فریق کے لیے ضمانت فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ پھر سے معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہو۔