رخصتی کے وقت ایک ماں کی نصیحتیں اپنی جدا ہونے والی بیٹی کے نام

[]

ڈاکٹرمحمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

قبیلہ بنی شیبان عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا، امامہ نامی خاتون اسی قبیلہ کے ایک شریف خانوادہ سے تعلق رکھتی تھیں، حارث کی صاحبزادی تھیں، ان کی زبان بہت شیریں اور فصیح تھی، عقل ودانش میں طاق تھیں، کسی محفل میں مشورہ دیتی تھیں تو بے چوں چرا لوگ اسے تسلیم کرتے تھے،

سرور دو عالم ﷺ کے نبی بنائے جانے سے قبل کا زمانہ جسے’’جاہلیت‘‘کا زمانہ کہا جاتا ہے، وہ زمانہ بھی انہوں نے پایا تھا، اور حضور ﷺ کی آمد کے بعد بھی با حیات رہیں، ان کے شوہر نامدار کا نام عوف بن محلم شیبانی تھا، وہ اپنی قوم کے سردار تھے،جب کِندہ کے بادشاہ عمروبن حجر کندی یا حارث بن عمرو نے ان کی بیٹی ام اِیاس کو نکاح کا پیغام بھیجا تو امامہ نے رخصتی کے وقت اپنی لخت جگر کو ایسی پر مغز نصیحت کی جو کسی بھی نئی نویلی دُلہن کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے،یہ نصیحت کیا،نصیحتوں کا مجموعہ ہے،جسے عربی زبان و ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے، اور ازدواجی اخلاقیات کا گراں قدر نمونہ بھی، اس لائق ہے کہ اسے آنکھوں کا سرمہ بنایا جائے اور دل کی بستی میں بسایا جائے،جس میں ایک کامیاب ازدواجی زندگی کے روشن اصول موجود ہیں۔

آج ایک بنت حواء کو ازدواجی زندگی میں جن دشواریوں کا سامنا ہے،وہ ناقابل بیان ہیں،ان میں جہاں مردوں کی اپنی اصلاح کرنے اوراپنی زندگی کا ازسر نو آغاز کرنے کی ضرورت ہے،وہیں اگر یہ پوچھا جائے کہ ایک عورت اپنے طور پر اپنے گھر کو جنت نشان بنانے کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہے،تو امامہ کی ان نصیحتوں میں بڑی ہدایات موجود ہیں،اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی کا گھر بسانے اور اسے شاد وآباد رکھنے میں ایک دانش مند کا کردار کتنا اہم ہوتاہے،آج کل عام طور سے عورتیں بچیوں کو اپنی ناعاقبت اندیشی سے دانستہ یا نادانستہ طورپربے جا ناز برداری میں بدمزاج اور بد اخلاق بناتی رہتی ہیں،جس سے ایسے مسائل رونما ہوتے ہیں جن سے نمٹنا سب کے لیے ایک مشکل کھڑی کردیتا ہے،اس لیے ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ کم سے کم درجہ میں اپنی بچیوں کی شادی شدہ زندگی میں بلا ضرورت مداخلت نہ کریں یا کم از کم ان کی رہنمائی کرنی ہی ہے توایسی بیش قیمت مثبت باتوں سے ان کی تربیت کیا کریں،جن میں اہم ترین نکات رازوں کی حفاظت،شوہر کی حکم عدولی سے اجتناب ،اس کی خوشی غم میں فعال شرکت،اس کا احترام،اس کی پسند وناپسند کا خیال جیسی چیزیں شامل ہیں۔

آمدم برسر مطلب:اپنی بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:’’میری پیاری بیٹی!اگر صرف اس بنیاد پر نصیحت کی ضرورت نہ ہوکہ جسے نصیحت کی جارہی ہے وہ پہلے سے ہی باوقار اور با ادب ہے،تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اتنی ہونہار اور نیک طینت ہو کہ تمہیں نصیحت کی ضرورت نہیں؛لیکن نصیحت بہرحال غافل کے لیے یاد دہانی اور عاقل کی معاونت ہے،اگر کوئی عورت صرف اس وجہ سے اپنے شوہر سے بے نیاز اور مستغنی ہوجائے کہ اس کے والدین بہت دولت منداور خوش حال ہیں تو تم عورتوں میں سب سے زیادہ اس بات کی مستحق ہو کہ اپنے شوہر سے بے نیاز اور لاتعلق ہوجاؤ؛لیکن عورتیں مردوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور مرد عورتوں کے لیے‘‘۔

اب وہ اپنی زریں نصیحتوں کا آغاز کرتی ہیں، کہتی ہیں:’’اس لیے میں تمہیں چند نصیحتیں کرتی ہوں،انہیں گوش دل سے سنو اور گرہ میں باندھ لو!

لخت جگر!اب تم وہ فضا چھوڑ کر جارہی ہوجس میںتم نے اب تک سانسیں لی ہیں،جس آشیانہ میں تم نے اپنے والدین کے درمیان نشوونما پائی،اسے چھوڑ کر ایک ایسے آشیانہ کا رخ کررہی ہوجہاں تم اجنبی ہوگی،ایک ایسے شریک حیات کے پاس جارہی ہوجس سے تمہارا اب تک کوئی تعلق نہیں تھا؛اوراس سے تم مانوس نہیں،لیکن اب اس شریک سفر کے ساتھ گھلنا ملنا اور اسی کے لیے پگھلنا ہے،اب وہی تمہارا رفیق،نگراں اورنگہبان ہے،تم صرف اسی کی ہوکر رہنا،وہ تمہارا اور صرف تمہارا ہوکر رہے گا۔

نور نظر! میں تمہیں چند قیمتی باتیں جہیز میں دیتی ہوں،یہی تمہارے لیے بیش قیمت سرمایہ ہے،اگر مجھے یاد کرنا تو انہیں کے ذریعہ یاد کرنا۔

٭قناعت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دینا،جب شوہر پکارے تو اس پر لبیک کہنا اور جب حکم دے تو فوراً لپکنا، قناعت سے دل کو راحت ملتی ہے اور شوہرکی باتیں مانتے رہنے سے رب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، قناعت سے رفاقت میں دوام آتا ہے اور شوہر کی بات ماننے سے زندگی خوشگوار ہوتی ہے۔

٭ اپنے شوہر کی مزاج شناس بن کر رہنا،اس کے چشم وابرو کے اشاروں کو سمجھنا،اور اس کی قوت شامہ کے آگے خوشبو بن کر رہنا۔

٭دیکھو!کوشش کرنا کہ اس کی آنکھیں تمہاری کسی برائی پر نہ پڑیں۔

٭تمہارے جسم سے اسے سدا ایسی ہی خوشبو ملے جو جاں نواز اور فرحت بخش ہو۔

٭دیکھو! تمہاری آنکھوں کا سرمہ بھی تمہارے حسن کو نکھارنے کے لیے کافی ہے،اور تمہارے چہرہ کا پانی ہی اس کے لیے خوشبو ہے،اگر تمہیں خوشبو میسر نہ آئے تو غم نہ کھانا،تمہارے کردار کی خوشبو ہی اصل خوشبو ہے۔

٭خیال رکھنا! کب اسے کھانے کی ضرورت ہے،اور جب وہ سوجائے تو اسے سکون پہنچانا،اس لیے کہ بھوک کی گرمی اندر اندر ہی سلگاتی ہے، اور نیند میں خلل طیش وغضب بھڑکاتا ہے۔

٭اس کے گھر اور اس کے مال کی پوری نگہداشت رکھنا۔

٭اس کی شخصیت ،اس کے متعلقین،اور گھر والوں کا دھیان رکھنا؛اس لیے کہ مال کی حفاظت اچھی تقدیر کی علامت ہے اور اہل خانہ کا خیال حسن تدبیر کی پتہ دیتا ہے۔

٭دیکھو! تمہیں اس کے رازوں کی امین ہو،کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے راز تم سے فاش ہوجائیں۔

٭بھولے سے اس کی نافرمانی نہ کرنا،اس کی اطاعت ہی تمہاری عادت ہو؛کیونکہ اگر تم اس کا راز فاش کروگی تو اس کی توقع نہ رکھنا کہ وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ وفا کرے گا،اور اگر اس کی بات نہ مانوگی تو گویا اس کو ناراض کروگی۔

٭بیٹی!اس کا بھی خیال رکھنا کہ جب وہ غمگین ہو تو تم خوش نہ ہونا بلکہ اس کے غم میں شریک ہو کر اس کا غم غلط کرنا۔

٭اگر وہ خوش وخرم ہو تو تم منہ نہ بسور لینا؛اس لیے کہ اگر وہ غمز دہ ہو اور تم ہشاش بشاش ہو تو یہ تمہای غفلت ہے،اور تم غمزدہ ہو تو گویا تم اس کا مزا کرکرا کررہی ہو۔

٭جتنا ہو سکے اس کے آگے بچھی رہنا،وہ تم سے بڑھ کر کسی کو عزت نہیں دے گا۔

٭اکثر اس کی ہاں میں ہاں ملانا،زندگی بھر خیریت سے رہوگی۔

٭یاد رکھنا شوہر کے رہتے ہوئے جو کچھ تم چاہتی ہو وہ تمہیں اس وقت تک حاصل نہ ہوگا جب تک اس کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح نہ دوگی،اس کی پسند کو اپنی پسند بنالو،یہ چیز تمہارے دامن کو خوشیوں سے بھردے گی۔

بس اللہ ہی تمہارا نگہبان اور خیر کا سامان کرنے والا ہے‘‘۔
(حوالہ جات: العقد الفرید، ابن عبد ربہ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۰۴ھ، ۷؍۸۹، جمہرۃ خطب العرب، احمد زکی صفوت، المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، ۱؍۱۴۲، المستطرف في کل فن مستظرف، شہاب الدین الأبشیہی، عالم الکتب، بیروت، ۱۴۱۹ھ، ص۴۵۸)
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *